Ruh-ul-Quran - Al-Furqaan : 69
یُّضٰعَفْ لَهُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ یَخْلُدْ فِیْهٖ مُهَانًاۗۖ
يُّضٰعَفْ : دوچند کردیا جائیگا لَهُ : اس کے لیے الْعَذَابُ : عذاب يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت وَيَخْلُدْ : اور وہ ہمیشہ رہے گا فِيْهٖ : اس میں مُهَانًا : خوارہ ہو کر
قیامت کے دن اس کے لیے عذاب بڑھایا جاتا رہے گا اور وہ ہمیشہ رہے گا اس میں ذلیل و خوار ہوکر
یُّضٰعَفْ لَـہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰـمَۃِ وَیَخْلُدْفِیْہٖ مُھَانًا۔ (الفرقان : 69) (قیامت کے دن اس کے لیے عذاب بڑھایا جاتا رہے گا اور وہ ہمیشہ رہے گا اس میں ذلیل و خوار ہوکر۔ ) کبائر کی ہولناک سزا اوپر کی آیت میں جن بڑے بڑے گناہوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ اپنے اثرات کے اعتبار سے اس قدر دوررس اور نتائج کے اعتبار سے ایسے شدید واقع ہوئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا ارتکاب کرنے والوں کو ان کے اثرات و نتائج کے اعتبار سے ایسے شدید عذاب کا سزاوار ٹھہرایا ہے کہ جس سے زیادہ شدید عذاب کا تصور بھی نہیں ہوسکتا۔ بڑی سے بڑی سزا بھی غیرمحدود نہیں ہوتی کیونکہ دنیا میں کوئی عمل بھی غیرمحدود نہیں۔ کسی شخص کو عمرقید بھی دے دی جائے تو وہ بھی عمر ختم ہونے سے ختم ہوجائے گی اور یا عام روایت کے اعتبار سے چودہ سال میں اس کا اختتام ہوجائے گا۔ اور شدت کے اعتبار سے بھی کوئی سزا قانونی طور پر ایسی نہیں ہوتی جو جان لیوا ثابت ہو۔ اور اگر کسی ظالم نے جان لیوا قسم کی سزا بھی دے ڈالی تو جب بھی اس کا اختتام انتہائے عمر پر ہوجائے گا۔ لیکن ان جرائم کی سزا ایسی حیرت انگیز ہے کہ جیسے جیسے سزا کی مدت گزرتی جائے گی ویسے ویسے اس میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ جہنم کی ابدی سزا میں اس بات کا تو امکان ہی نہیں کہ کبھی اس کا خاتمہ بھی ہوجائے۔ البتہ اس بات کا امکان ہوسکتا ہے کہ مسلسل سزا برداشت کرنے کی وجہ سے کسی حد تک احساس میں کمی ہوجائے۔ کیونکہ جو لوگ جیل میں چکی پیسنے پر لگائے جاتے ہیں شروع شروع میں ان کے ہاتھوں میں چھالے پڑجاتے ہیں جو بعض دفعہ زخموں کی صورت اختیار کر جاتے ہیں جن سے خون بہتا ہے۔ لیکن آخر ایک وقت آتا ہے کہ یہ چھالے اور زخم گٹوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور پھر چکی کا پیسنا اس قدر تکلیف دہ نہیں رہتا جیسا پہلے دنوں میں ہوتا ہے۔ غالب نے انسانی فطرت کے اسی حوالے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : رنج کا خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں لیکن قیامت کا عذاب عجیب عذاب ہوگا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صرف اس کی مدت ہی نہیں بڑھے گی بلکہ شدت میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔ آگ کھال کو جھلس دے گی تو نئی کھال پہنا دی جائے گی۔ جلنے والا موت کی تمنا کرے گا لیکن موت کبھی نہیں آئے گی۔ عذاب کی اسی شدت اور اسی بڑھتی ہوئی مدت میں انسان ہمیشہ رہے گا جس کا کبھی خاتمہ نہیں ہوگا۔ بعض سزائیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو عزت و سرفرازی کا باعث بن جاتی ہیں۔ ملک کی آزادی کے لیے جہاں جہاں بھی لوگوں نے جیلیں کاٹیں اور سزائیں برداشت کیں آزادی کے بعد انھیں کو حکومت کے مناصب بھی ملے۔ اور جن لوگوں نے کسی عظیم مقصد کے لیے تکلیفیں اٹھائیں، تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ کے لیے زندہ ہوگیا اور وہ ہمیشہ آخرت میں بہتر زندگی کے لیے پرامید رہے۔ مولانا ظفرعلی خان نے لمبی قید کاٹی، لیکن نہایت فخر اور عجز کے ساتھ کہا : محمد ﷺ پر شفاعت کا مری اس عرض کا حق ہے کہ آقا ﷺ تیری خاطر میں نے چکی جیل میں پیسی لیکن آخرت کا عذاب صرف عذاب ہی نہیں ہوگا بلکہ اس عذاب میں ذلت کی مار بھی ہوگی۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا ویسے ویسے عذاب جھیلنے والا اپنی اور دوسروں کی نگاہوں میں ذلیل ہوتا جائے گا۔
Top