Ruh-ul-Quran - Al-Furqaan : 77
قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّیْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ١ۚ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ یَكُوْنُ لِزَامًا۠   ۧ
قُلْ : فرما دیں مَا يَعْبَؤُا : پرواہ نہیں رکھتا بِكُمْ : تمہاری رَبِّيْ : میرا رب لَوْلَا دُعَآؤُكُمْ : نہ پکارو تم فَقَدْ كَذَّبْتُمْ : تو جھٹلا دیا تم نے فَسَوْفَ : پس عنقریب يَكُوْنُ : ہوگی لِزَامًا : لازمی
اے پیغمبر کہہ دیجیے کہ میرے رب کو تمہاری کیا پرواہ ہے اگر تمہیں دعوت دینا نہ ہوتا، سو تم نے اس کی تکذیب کردی تو وہ چیز عنقریب لازم ہو کر رہے گی
قُلْ مَا یَعْبَـؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلاَ دُعَآؤُکُمْ ج فَقَدْکَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ یَکُوْنُ لِزَامًا۔ (الفرقان : 77) (اے پیغمبر کہہ دیجیے کہ میرے رب کو تمہاری کیا پرواہ ہے اگر تمہیں دعوت دینا نہ ہوتا، سو تم نے اس کی تکذیب کردی تو وہ چیز عنقریب لازم ہو کر رہے گی۔ ) مخالفین کو وارننگ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مخالفین کو دھمکی دی ہے اور براہ راست ان سے کچھ کہنے کی بجائے آنحضرت ﷺ کو ارشاد فرمایا گیا کہ آپ انھیں یہ وارننگ دے دیں، کیونکہ وہ آپ ہی کے سامنے اللہ تعالیٰ کے دین کا انکار کرتے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کا تمسخر اڑاتے ہیں اور آپ جس طرح خون جگر پی پی کر ان کی اصلاح کی خاطر تبلیغ و دعوت کا فرض انجام دے رہے ہیں وہ اس سے اثر لینے کی بجائے اسے آپ کی دیوانگی قرار دے رہے ہیں۔ وہ جیسے جیسے مخالفت میں آگے بڑھتے جارہے ہیں آپ کی تبلیغی کاوشوں میں ویسے ویسے سرگرمی آتی جارہی ہے۔ وہ بدزبانی کرتے ہیں اور آپ ان کی ہدایت کے لیے دعائیں مانگتے ہیں۔ انھیں کہہ دیجیے کہ میں یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کر رہا ہوں اور تم یہ سمجھتے ہو کہ تم اسے قبول نہ کرکے شاید اللہ تعالیٰ کا یا میرا کچھ بگاڑ رہے ہو۔ حالانکہ میری تبلیغ و دعوت اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلسل قرآن کریم کا نزول محض اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر یہ بات لازم کر رکھی ہے کہ میں اس وقت تک کسی قوم کو عذاب نہیں دے گا جب تک اس پر اتمامِ حجت نہ ہوجائے تاکہ قیامت کے دن کوئی شخص یہ نہ کہہ سکے کہ ہمارے پاس کوئی انذار کرنے والا نہیں پہنچا۔ یہ ہے وہ ذمہ داری جس کی ادائیگی کے لیے اللہ تعالیٰ رسول بھیجتا اور کتاب نازل کرتا ہے، ورنہ زمین پر بسنے والی ایک ادنیٰ مخلوق کی اللہ تعالیٰ کا کیا پرواہ ہوسکتی ہے۔ اب جبکہ تم اس کو جھٹلا چکے ہو اور میری ہمدردیاں اور خیرخواہیاں تمہاری اس سرکشی کو روکنے سے عاجز رہ گئی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تکذیب و انکار کرنے والی قوموں پر اتمامِ حجت ہوجانے کے بعد جس طرح عذاب آتا رہا ہے تم بھی اپنے رویئے سے اس کے قریب پہنچ چکے ہو۔ کیونکہ تکذیب کا لازمی نتیجہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے۔ قدرت اس میں مہلت تو دیتی ہے لیکن وہ ایسی لازم ہوجانے والی چیز ہے جس سے کوئی امت اپنے آپ کو تبدیل کیے بغیر بچ نہیں سکتی۔
Top