Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 111
قَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ لَكَ وَ اتَّبَعَكَ الْاَرْذَلُوْنَؕ
قَالُوْٓا : وہ بولے اَنُؤْمِنُ : کیا ہم ایمان لے آئیں لَكَ : تجھ پر وَاتَّبَعَكَ : جبکہ تیری پیروی کی الْاَرْذَلُوْنَ : رذیلوں نے
انھوں نے جواب دیا کہ کیا ہم تم پر ایمان لے لائیں، حالانکہ تمہاری پیروی صرف گھٹیا لوگ کررہے ہیں
قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ لَـکَ وَاتَّـبَعَکَ الْاَرْذَلُوْنَ ۔ (الشعرآء : 111) (انھوں نے جواب دیا کہ کیا ہم تم پر ایمان لے لائیں، حالانکہ تمہاری پیروی صرف گھٹیا لوگ کررہے ہیں) خوئے بدرا بہانہ بسیار حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت کے جواب میں آپ ( علیہ السلام) کی قوم کے متکبرین اور رئوسا نے جواب دیا کہ ہم آپ ( علیہ السلام) پر کیسے ایمان لاسکتے ہیں جبکہ تم پر ایمان لانے والے ایسے لوگ ہیں جو خاندانی لحاظ سے بڑے گھٹیا ہیں، مالی لحاظ بڑے مفلس اور گنگال ہیں، معاشرے میں انھیں کوئی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔ رہے اونچے طبقہ کے بااثر اور خوشحال لوگ ان میں سے کوئی شخص بھی آپ ( علیہ السلام) کی دعوت پر ایمان نہیں لایا۔ اگر آپ ( علیہ السلام) کی دعوت میں کوئی وزن ہوتا تو قوم کے امراء، علماء، مذہبی پیشوا، معززین اور سمجھدار لوگ اسے قبول کرتے۔ لیکن ان میں سے تو کوئی بھی شخص آپ ( علیہ السلام) پر ایمان نہیں لایا، آپ ( علیہ السلام) کے پیچھے لگے ہیں تو ادنیٰ درجہ کے چند نادان لوگ جو کوئی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے۔ اب کیا ہم جیسے بلند پایہ لوگ ان بےشعور اور کمین لوگوں کے زمرے میں شامل ہوجائیں۔ جو کچھ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے امراء نے آپ ( علیہ السلام) سے کہا، ہر قوم کے مالداروں اور سرداروں نے ہمیشہ اپنی طرف آنے والے پیغمبروں سے اسی قسم کی باتیں کی ہیں۔ ان لوگوں کی سوچ یہ تھی کہ حق صرف وہ ہے جسے قوم کے بڑے لوگ حق مانیں، کیونکہ وہی عقل اور سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ رہے چھوٹے لوگ تو ان کا چھوٹا ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ بےعقل اور ضعیف الرائے ہیں۔ ایسے لوگوں کا کسی پر ایمان لانا کیا اہمیت رکھتا ہے۔
Top