Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 112
قَالَ وَ مَا عِلْمِیْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَۚ
قَالَ : (نوح) نے کہا وَمَا عِلْمِىْ : اور مجھے کیا علم بِمَا : اس کی جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
کہا مجھے اس کی کیا خبر جو وہ کرتے رہے ہیں
قَالَ وَمَا عِلْمِیْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ۔ اِنْ حِسَابُھُمْ اِلاَّ عَلٰی رَبِّیْ لَوْتَشْعُرُوْنَ ۔ وَمَـآ اَنَا بِطَارِدِالْمُؤْمِنِیْنَ ۔ اِنْ اَنَا اِلاَّ نَذِیْرٌمُّبِیْنٌ۔ (الشعرآء : 112 تا 115) (کہا مجھے اس کی کیا خبر جو وہ کرتے رہے ہیں۔ ان کا حساب تو میرے رب کے ذمہ ہے، اگر تم سمجھو۔ اور میں مومنوں کو دھتکارنے والا نہیں ہوں۔ میں تو بس ایک کھلا ڈرانے والا ہوں۔ ) طبقہ امراء کے معارضے کا جواب ان آیات میں طبقہ امراء کے معارضے کا جواب ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ شرافت و رذالت کا انحصار تو آدمی کے عمل و کردار پر ہے نہ کہ نسب و خاندان اور مال و جائیداد پر۔ اور نہ علم و دانش مال و دولت سے خریدے جاسکتے ہیں اور نہ ذہین لوگ ہمیشہ بڑے خاندانوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ مجھے کیا معلوم کہ اب تک ان کا عمل کیا رہا ہے۔ ان کے ماضی کا احتساب میرے رب کے ذمہ ہے، میرے سامنے تو ان کا حاضر ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ اپنے رب پر ایمان لائے ہیں اور اس سے ڈرنے والے ہیں۔ تم میں اگر شعور کی رمق ہوتی تو تم جس طرح شرافت و رذالت کو مال و دولت اور نام و نسب کے حوالے سے دیکھ رہے ہو، یہ خناس تمہارے ذہنوں میں نہ ہوتا اور لوگوں کی غریبی قبول حق میں تمہارے لیے حجاب نہ بنتی۔ تم یہ چاہتے ہو کہ میں ان غریبوں کو دھتکار دوں اور تمہیں اپنے قریب کروں اور اس طرح شاید تم ایمان لے آئو۔ ایمان کی دعوت سب کے لیے ہے۔ ہر غریب اور امیر اور چھوٹا اور بڑا اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے۔ کوئی امیر شخص اس لیے ہدایت سے دور نہیں رہ سکتا کہ غریب لوگ ہدایت کیوں قبول کررہے ہیں۔ اور نہ عنداللہ اس کا یہ عذر مسموع ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے نزدیک اصل دولت قبولیتِ ایمان ہے۔ جو شخص اس غرض کے لیے میرے پاس آتا ہے وہی اسلام کا اصل سرمایہ ہے۔ میں یہ بےہودہ طرزعمل اختیار نہیں کرسکتا کہ جو لوگ میری بات نہیں مانتے، میں ان کے پیچھے پھرتا رہوں۔ اور جو میری بات مانتے ہیں انھیں دھکے دے کر نکال دوں۔ میں صرف نذیرمبین ہوں یعنی ایک بےلاگ اللہ تعالیٰ سے ڈرانے والا۔ میں نے اپنا فریضہ انذار ادا کردیا۔ جو شخص ایمان لے آیا، اس نے اپنی منزل کو پا لیا۔ اور جو ایمان نہیں لائے گا اس کی مسئولیت اس پر ہے۔
Top