Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 139
فَكَذَّبُوْهُ فَاَهْلَكْنٰهُمْ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً١ؕ وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
فَكَذَّبُوْهُ : پس انہوں نے جھٹلایا اسے فَاَهْلَكْنٰهُمْ : تو ہم نے ہلاک کردیا انہیں اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيَةً : البتہ نشانی وَمَا كَانَ : اور نہیں تھے اَكْثَرُهُمْ : ان کے اکثر مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
بیشک اس کے اندر بہت بڑی نشانی ہے، مگر ان میں سے اکثر لوگ ماننے والے نہیں ہیں،
فَکَذَّبُوْہُ فَاَھْلَـکْـنٰـھُمْ ط اِنّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَـۃً ط وَمَا کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ۔ وَاِنَّ رَبَّـکَ لَھُوْالْعَزِیْزُالرَّحِیْمْ ۔ (الشعرآء : 139، 140) (آخر کار انھوں نے حضرت ہود (علیہ السلام) کو جھٹلا دیا، اور ہم نے ان کو ہلاک کردیا۔ بیشک اس کے اندر بہت بڑی نشانی ہے، مگر ان میں سے اکثر لوگ ماننے والے نہیں ہیں، اور بیشک تمہارا رب وہ غالب اور مہربان ہے۔ ) تکذیب کا نتیجہ جب قوم ہود نے تکذیب میں انتہا کردی حتیٰ کہ حضرت ہود (علیہ السلام) کی زندگی کے درپے ہوگئے، تو اللہ تعالیٰ کی سنت حرکت میں آئی تو اس قوم کو ہلاک کردیا گیا۔ بعض دیگر مواقع پر قرآن کریم نے بتایا ہے کہ ایک زور کی آندھی اٹھی، قوم ہود کی وادیوں کی طرف بڑھی، یہ لوگ یہ سمجھے کہ گھٹا اٹھ رہی ہے، بارش کی شدید ضرورت تھی، نہایت خوش ہوئے، خوب خوشیاں منائی جانے لگیں کہ بارش ہوگی تو قحط سالی ٹل جائے گی اور زمین غلہ اگلنے لگے گی، مگر وہ گھٹا خدا کا عذاب تھا۔ آٹھ دن اور سات راتوں تک مسلسل ایسی طوفانی ہوا چلتی رہی جس نے ہر چیز کو تباہ کر ڈالا۔ اس کے زور کا یہ عالم تھا کہ اس نے آدمیوں کو اٹھا اٹھا کر پھینکا۔ اس کی گرمی اور خشکی کا یہ حال تھا کہ جس چیز پر گزر گئی اسے بوسیدہ کرکے رکھ دیا۔ یہ طوفان اس وقت تک نہ تھما جب تک اس ظالم قوم کا ایک ایک متنفس ختم نہ ہوگیا۔ بس ان کی بستیوں کے کھنڈر ہی ان کے انجام کی داستان سنانے کے لیے کھڑے رہ گئے۔ اور آج کھنڈر بھی باقی نہیں ہیں۔ احقاف کا پورا علاقہ ایک خوفناک ریگستان بن چکا ہے جس میں زندگی کے دور تک آثار نہیں۔ اس کے بعد وہی آیات ترجیع ہیں جو اوپر گزر چکیں اور ان کی وضاحت پہلے ہوچکی ہے۔
Top