Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 146
اَتُتْرَكُوْنَ فِیْ مَا هٰهُنَاۤ اٰمِنِیْنَۙ
اَتُتْرَكُوْنَ : کیا چھوڑ دئیے جاؤگے تم فِيْ : میں مَا هٰهُنَآ : جو یہاں ہے اٰمِنِيْنَ : بےفکر
کیا تمہیں رہنے دیا جائے گا اس (عیش و طرب) میں جس میں تم یہاں ہو ہر خطرے سے محفوظ
اَ تُتْرَکُوْنَ فِیْ مَا ھٰـھُنَـآ اٰمِنِیْنَ ۔ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنِ ۔ وَّزُرُوْعٍ وَّنَخْلٍ طَلْـعُـھَا ھَضِیْمٌ۔ (الشعرآء : 126 تا 148) (کیا تمہیں رہنے دیا جائے گا اس (عیش و طرب) میں جس میں تم یہاں ہو ہر خطرے سے محفوظ۔ باغوں اور چشموں میں۔ کھیتوں اور نخلستانوں میں جن کے خوشے رس بھرے ہیں۔ ) خوشحالی سے پیدا ہونے والی غلط فہمی کا ازالہ دنیا کی محبت میں ڈوبے ہوئے لوگ جن بڑی بڑی خوش فہمیوں میں مبتلا ہوتے ہیں ان میں سب سے بڑی خوش فہمی یہ ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا یہ عیش دائمی اور ابدی ہے، اس کو کبھی زوال نہیں ہوگا اور نہ کبھی ان نعمتوں کا حساب لیا جائے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کبھی اپنی عاقبت کے بارے میں سوچنے کی زحمت نہیں کرتے۔ یہی حال قوم ثمود کا بھی تھا کہ وہ دنیوی نعمتوں کو ہمیشہ رہنے والی نعمتیں سمجھتے تھے اور پھر ان نعمتوں پر ذاتی استحقاق کا دعویٰ بھی رکھتے تھے۔ درحقیقت نعمتوں کا حصول کوئی برائی نہیں۔ خوشحالی انسان کو آسودگی دیتی ہے۔ وسائلِ زندگی کی فراوانی کسی بھی قوم کی ترقی کی علامت ہوتی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ قوم کی حقیقی زندگی کا باعث اس وقت بنتا ہے جب اسے اپنا ذاتی استحقاق یا اپنی ملک سمجھنے کی بجائے امانت اور اللہ تعالیٰ کی عطا سمجھا جائے۔ اور یہ یقین رکھا جائے کہ جس منعم حقیقی نے یہ نعمتیں عطا فرمائی ہیں بجا طور پر اسے یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ ان کے بارے میں جواب طلبی کرے۔ اور ہر وہ شخص جس کو نعمتیں عطا ہوتی ہیں اس پر لازم ہے کہ وہ ان نعمتوں پر منعم حقیقی کا شکر بجا لائے اور انھیں امانت سمجھ کر حقِ امانت کی ادائیگی کی فکر کرے۔ اور جو شخص امانتوں کی فراوانی سے گراں بار کیا گیا ہے، اسے جوابدہی کے احساس سے اتنا ہی زیادہ فکرمند ہونا چاہیے۔ چناچہ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کی صلاح و بقا کے لیے بار بار ان پر زور دیا کہ تمہارے اندر دولت کی جو ناہمواری اور خلق خدا کے حوالے سے بےالتفاتی نے جو مسائل پیدا کیے ہیں اس کا حل اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ تم اپنے اندر یہ یقین پیدا کرو کہ یہ نعمتیں ہمیشہ رہنے والی نہیں۔ یہ باغات اور چشمے اور یہ نخلستان اور جھکی ہوئی شاخوں والے پھلدار درخت حق دوام لے کر وجود میں نہیں آئے۔ یہ تمہارے لیے امتحان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو نعمت بھی دی ہے اس کے ساتھ مسئولیت بھی عائد کی ہے۔ جب تک مسئولیت کی فکر پیدا نہیں ہوگی نہ نعمتوں پر شکر کا جذبہ پیدا ہوگا اور نہ راہ ہدایت نصیب ہوگی۔ طَلْـعُـھَا ھَضِیْمٌ … طَلْعٌ خوشے کو کہتے ہیں ہَضِیْمٌ وہ کھجور جس کے خوشے آپس میں گتھم گتھا ہوں، جو پھلوں سے لد کر جھک گئے ہوں۔ اور جن کے پھل پکنے کے بعد نرمی اور رطوبت کی وجہ سے پھٹے پڑتے ہوں۔ جو مٹھاس سے اتنے نرم اور گداز ہوں کہ منہ میں ڈالتے ہی گھل جائیں۔ یہ سارے مفاہیم ایک دوسرے سے قربت رکھتے ہیں اور ان سب کے لیے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔
Top