Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 149
وَ تَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا فٰرِهِیْنَۚ
وَتَنْحِتُوْنَ : اور تم تراشتے ہو مِنَ الْجِبَالِ : پہاڑوں سے بُيُوْتًا : گھر فٰرِهِيْنَ : خوش ہوکر
تم پہاڑ کھود کھود کر فخریہ ان میں عمارتیں بناتے ہو
وَتَـنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا فٰرِھِیْنَ ۔ فَاتَّـقُواللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ ۔ (الشعرآء : 149، 150) (تم پہاڑ کھود کھود کر فخریہ ان میں عمارتیں بناتے ہو۔ پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ ) آخرت فراموشی سے پیدا ہونے والے تمدن کا فساد گزشتہ مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تم چونکہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہو کہ شاید ہمیشہ یہیں رہنا ہے اس لیے عاقبت نااندیش ہو کر مادی زندگی کی محبت میں ڈوب گئے ہو۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ تم پہاڑوں کو کھود کھود کر اور تراش تراش کر ان کے اندر عمارتیں بناتے ہو تاکہ وہ بھی پہاڑوں ہی کی طرح پائیدار اور غیرمعمولی مضبوط ہوں اور ایک طویل زمانے تک تمہارے نام کو زندہ رکھیں۔ قوم عاد کو بھی اسی ذہنیت نے تباہ کیا اور قوم ثمود بھی ان کی جانشینی کا حق ادا کررہی تھی۔ صاحب تفہیم القرآن نے ان کے ان تاریخی کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ : جس طرح عاد کے تمدن کی نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ وہ اونچے اونچے ستونوں والی عمارتیں بناتے تھے، اسی طرح ثمود کے تمدن کی سب سے زیادہ نمایاں خصوصیت جس کی بنا پر وہ قدیم زمانے کی قوموں میں مشہور تھے، یہ تھی کہ وہ پہاڑوں کو تراش تراش کر ان کے اندر عمارتیں بناتے تھے۔ چناچہ سورة فجر میں جس طرح عاد کو ذَاتُ الْعِمَاد (ستونوں والے) کا لقب دیا گیا ہے۔ اسی طرح ثمود کا ذکر اس حوالے سے کیا گیا ہے کہ اَلَّذِیْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ ” وہ جنھوں نے وادی میں چٹانیں تراشی ہیں۔ “ اس کے علاوہ قرآن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے ہاں میدانی علاقوں میں بھی بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے تھے تَـتَّخِذُوْنَ مِنْ سُھُوْلِھَا قُصُوْرًا (الاعرا، آیت 74) اور ان تعمیرات کی غرض وغایت کیا تھی ؟ قرآن اس پر لفظ فٰرِھِیَنْ سے روشنی ڈالتا ہے۔ یعنی یہ سب کچھ اپنی بڑائی، اپنی دولت و قوت اور اپنے کمالاتِ فن کی نماش کے لیے تھا، کوئی حقیقی ضرورت ان کے لیے داعی نہ تھی۔ ایک بگڑے ہوئے تمدن کی شان یہی ہوتی ہے۔ ایک طرف معاشرے کے غریب لوگ سر چھپانے تک کو ڈھنگ کی جگہ نہیں پاتے، دوسری طرف امراء اور اہل ثروت رہنے کے لیے جب ضرورت سے زیادہ محل بنا چکتے ہیں تو بلا ضرورت نمائشی یادگاریں تعمیر کرنے لگتے ہیں۔ ثمود کی ان عمارتوں میں سے کچھ اب بھی باقی ہیں جنھیں 1959 ء کے دسمبر میں، میں نے خود یکھا ہے۔ یہ جگہ مدینہ طیبہ اور تبوک کے درمیان حجاز کے مشہور مقام العلاء (جسے عہدنبوی میں وادی القریٰ کہا جاتا تھا) سے چند میل کے فاصلے پر بجانبِ شمال واقع ہے۔ آج بھی اس جگہ کو مقامی باشندے الحجر اور مدائن صالح کے ناموں ہی سے یاد کرتے ہیں۔ اس علاقے میں العلاء تو اب بھی ایک نہایت سرسبز و شاداب وادی ہے جس میں کثرت سے چشمے اور باغات ہیں، مگر الحجر کے گردوپیش بڑی نحوست پائی جاتی ہے۔ آبادی برائے نام ہے۔ روئیدگی بہت کم ہے۔ چند کنوئیں ہیں۔ انہی میں سے ایک کنویں کے متعلق مقامی آبادی میں یہ روایت چلی آرہی ہے کہ حضرت صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی اسی سے پانی پیتی تھی۔ اب وہ ترکی عہد کی ایک ویران چھوٹی سے فوجی چوکی کے اندر پایا جاتا ہے اور بالکل خشک پڑا ہے۔ اس علاقے میں جب ہم داخل ہوئے تو العلاء کے قریب پہنچتے ہی ہر طرف ہمیں ایسے پہاڑ نظر آئے جو بالکل کھیل کھیل ہوگئے ہیں۔ صاف محسوس ہوتا تھا کہ کسی سخت ہولناک زلزلے نے انھیں سطح زمین سے چوٹی تک جھنجوڑ کر قاش قاش کر رکھا ہے۔ اسی طرح کے پہاڑ ہمیں مشرق کی طرف العلاء سے خیبر جاتے ہوئے تقریباً پچاس میل تک اور شمال کی طرف ریاست اردن کی حدود میں تیس چالیس میل اندر تک ملتے چلے گئے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تین چار سو میل لمبا اور سو میل چوڑا ایک علاقہ تھا جسے ایک زلزلہ عظیم نے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ثمود کی جو عمارتیں ہم نے الحجر میں دیکھی تھی، اسی طرح کی چند عمارتیں ہم کو خلیج عقبہ کے کنارے مدین کے مقام پر، اور اردن کی ریاست میں پٹرا (Petra) کے مقام پر بھی ملیں۔ خصوصییت کے ساتھ پٹرا میں ثمود کی عمارات اور نبطیوں کی بنائی ہوئی عمارات پہلو بہ پہلو موجود ہیں اور ان کی تراش خراش اور طرزتعمیر میں اتنا نمایاں فرق ہے کہ ہر شخص ایک نظر دیکھ کر ہی سمجھ سکتا ہے کہ یہ دونوں نہ ایک زمانے کی ہیں اور نہ یہ ایک ہی قوم کا طرزتعمیر ہے۔ انگریز مستشرق ڈاٹی (Daughty) قرآن کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے الحجر کی عمارات کے متعلق یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ ثمود کی نہیں بلکہ نبطیوں کی بنائی ہوئی عمارات ہیں لیکن دونوں قوموں کی عمارات کا فرق اس قدر واضح ہے کہ ایک اندھا ہی انہیں ایک قوم کی عمارات کہہ سکتا ہے۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ پہاڑ تراش کر ان کے اندر عمارتیں بنانے کا فن ثمود سے شروع ہوا، اس کے ہزاروں سال بعد نبطیوں نے دوسری اور پہلی صدی قبل مسیح میں اسے عروج پر پہنچایا اور پھر ایلورا میں (جس کے غار پٹرا سے تقریباً سات سو برس بعد کے ہیں) یہ فن اپنے کمال کو پہنچ گیا۔ (تفہیم القرآن)
Top