Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 18
قَالَ اَلَمْ نُرَبِّكَ فِیْنَا وَلِیْدًا وَّ لَبِثْتَ فِیْنَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِیْنَۙ
قَالَ : فرعون نے کہا اَلَمْ نُرَبِّكَ : کیا ہمنے تجھے نہیں پالا فِيْنَا : اپنے درمیان وَلِيْدًا : بچپن میں وَّلَبِثْتَ : اور تو رہا فِيْنَا : ہمارے درمیان مِنْ عُمُرِكَ : اپنی عمر کے سِنِيْنَ : کئی برس
فرعون نے کہا کیا ہم نے تم کو بچپن میں اپنے اندر نہیں پالا اور تو رہا ہمارے اندر اپنی عمر کے کئی سال
قَالَ اَلَمْ نُرَبِّکَ فِیْنَا وَلِیْدًا وَّ لَبِثْتَ فِیْنَا مِنْ عُمُرِکَ سِنِیْنَ ۔ وَفَعَلْتَ فَعْلَتَکَ الَّتِیْ فَعَلْتَ وَاَنْتَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ ۔ (الشعرآء : 18، 19) (فرعون نے کہا کیا ہم نے تم کو بچپن میں اپنے اندر نہیں پالا اور تو رہا ہمارے اندر اپنی عمر کے کئی سال۔ اور تو نے ارتکاب کیا اس فعل کا جس کا تو نے ارتکاب کیا، اور تو بڑا احسان فراموش ہے۔ ) فرعون کی برہمی فرعون نے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ دو باتیں سنیں، ایک تو یہ بات کہ ہم رب العالمین کی طرف سے رسول بن کر آئے ہیں اور دوسری یہ بات کہ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دیں، تو اسے تو آگ لگ گئی۔ وہ اس بات کا تصور بھی نہ کرسکتا تھا کہ اس کی غلام قوم کا ایک فرد اس کے سامنے دوبدو باتیں کرے اور پھر اس کی حیثیت کو چیلنج کرتے ہوئے رب العالمین کا نام لے اور اپنے آپ کو اس کا نمائندہ ٹھہرائے۔ فرعون اپنے آپ کو ربکم الاعلیٰ کہتا تھا، یعنی میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں، تو یہ رب العالمین کہاں سے آگیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر سارے جہانوں کا رب کوئی اور ہے تو میں کیا ہوں۔ اس کے لیے اس سے بڑھ کر تکلیف دہ بات اور کیا ہوسکتی تھی اور پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ مطالبہ کہ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے، یہ تو نہایت خطرناک مطالبہ تھا۔ دنیا میں کبھی غلامی کی زنجیریں یوں بھی کٹی ہیں کہ اچانک کسی استعماری قوت نے کسی قوم کو اپنی غلامی سے نکلنے کی آزادی دے دی ہو۔ کیونکہ غلاموں سے ہمیشہ گھروں کی خدمت لی جاتی ہے، بڑی سے بڑی بیگار میں انھیں جوتا جاتا ہے، زمین کی کھیتی باڑی انھیں کے دم سے ہوتی ہے، آقائوں کے شاندار محلات انھیں کی محنت اور پسینے سے تعمیر ہوتے ہیں، وہ اپنے آقائوں کو ہر طرح کا آرام پہنچانے کے لیے آٹھوں پہر بےزبان چوپایوں کی طرح کام میں جتے رہتے ہیں۔ بنی اسرائیل کو جانے کی اجازت دے کر ملکی زندگی کو تلپٹ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس لیے اس نے نہایت برہمی سے کہا کہ تمہاری یہ جرأت کہ تم مجھ سے اس طرح کی باتیں کرو، کیا تم وہی نہیں جو پانی میں بہتے ہوئے ایک بےکس بچے کی صورت میں ہمارے محلات کے قریب آیا تو ہم نے اسے ترس کھا کر محل کی خادمائوں کے حوالے کردیا۔ پھر عرصہ دراز تک ہمارے گھر میں تم ناز و نعم سے پلتے رہے اور جب تم ہمارے گھر کا ہی کھا پی کر جوان ہوئے تو ہمارے ہی ایک آدمی کو قتل کرکے بھاگ نکلے اور آج تمہاری جرأت کا عالم یہ ہے کہ تم میرے سامنے مطالبات لے کر آگئے ہو۔ تمہیں تو ایک قاتل ہوتے ہوئے پھانسی کی کوٹھڑی میں ہونا چاہیے۔
Top