Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 185
قَالُوْۤا اِنَّمَاۤ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَۙ
قَالُوْٓا : وہ بولے (کہنے لگے) اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اَنْتَ : تو مِنَ : سے الْمُسَحَّرِيْنَ : سحر زدہ (جمع)
انھوں نے جواب دیا، تم تو محض ایک سحرزدہ آدمی ہو
قَالُوْٓا اِنَّمَـآ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَ ۔ وَمَـآ اَنْتَ اِلاَّبَشَرٌ مِّثْـلُنَا وَاِنْ نَّظُنُّـکَ لَمِنَ الْکٰذِبِیْنَ ۔ فَاَسْقِطْ عَلَیْنَا کِسَفًا مِّنَ السَّمَـآئِ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ ۔ (الشعرآء : 185 تا 187) (انھوں نے جواب دیا، تم تو محض ایک سحرزدہ آدمی ہو۔ اور تم کچھ نہیں ہو، مگر ہمارے ہی جیسے ایک انسان، اور ہم تو تم کو بالکل جھوٹوں میں سے ہی خیال کرتے ہیں۔ پس تم ہم پر آسمان سے کوئی ٹکڑا گرائو، اگر تم سچے ہو۔ ) قومِ شعیب کا مطالبہ عذاب قومِ شعیب نے بالکل وہی جواب دیا جو ہمیشہ بگڑی ہوئی قومیں پیغمبروں کو دیتی رہی ہیں۔ اور اس سے پہلے گزرنے والی سرگزشتوں میں ہم اسے پڑھ چکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ تم یہ جو الٹی سیدھی باتیں کررہے ہو اور ہماری ترقی تمہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ اور دنیاداری کے معاملات کو تم روحانیت کے ترازو میں تولنا شروع کردیتے ہو۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم پر کسی نے جادو کردیا ہے جس کی وجہ سے تمہارے دماغ میں اختلال آگیا ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ تمہیں کبھی عذاب نظر آنے لگتا ہے اور تم ہمیں ڈرانے لگتے ہو۔ رہی یہ بات کہ تم اللہ تعالیٰ کا رسول ہونے کی وجہ سے ہمیں آنے والے خطرات سے باخبر کرنا چاہتے ہو، تو ہمارا گمان یہ ہے کہ تم رسول ہونے کا جھوٹا دعویٰ کررہے ہو، کیونکہ رسالت ایک غیرمعمولی منصب ہے، وہ ہر کہ و مہ کو تو نہیں مل سکتا۔ تم تو ہمارے جیسے ایک بشر ہو جس میں کوئی غیرمعمولی بات نہیں، تو ہم تمہیں رسول کیسے تسلیم کرلیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ تم یہ بھی کہتے ہو کہ اگر ہم نے تمہاری بات نہ مانی، تو آسمان ہم پر ٹوٹ پڑے گا۔ تو ٹھیک ہے تم آسمان سے کوئی ٹکڑا گرا کے دکھا دو ۔ لیکن جب تک آسمان کا کوئی ٹکڑا نہیں گرتا ہم کیسے باور کرلیں کہ تم واقعی اللہ تعالیٰ کے فرستادہ ہو۔
Top