Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 195
بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍؕ
بِلِسَانٍ : زبان میں عَرَبِيٍّ : عربی مُّبِيْنٍ : روشن (واضح)
ایسی عربی زبان میں جو بالکل واضح ہے
بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ ۔ (الشعرآء : 195) (ایسی عربی زبان میں جو بالکل واضح ہے۔ ) اہلِ عرب پر احسان اور تنبیہ قرآن کریم کی حقانیت کو واضح کرنے کے بعد یہ فرمایا گیا ہے کہ ہم نے اس کو ایک ایسی زبان میں نازل کیا ہے جو خود تمہاری اپنی زبان ہے اور اسلوب ایسا رکھا گیا ہے جو تمہارے لیے اطمینان بخش طریقے سے قابل فہم اور واضح الدلالت ہے، جس کی کوئی آیت بھی چیستان کی طرح گنجلک زبان نہیں رکھتی۔ اس کا مفہوم و مدعا ہر عربی زبان جاننے والا شخص بےتکلف سمجھ سکتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے اندر ایسی فصاحت و بلاغت اور ایسے اعلیٰ پائے کا اندازِ بیان رکھتی ہے کہ جس کی مثال لانا انسانی استطاعت سے باہر ہے۔ ایک ایسی کتاب جس کی حقانیت کو چیلنج نہ کیا جاسکے اور جس کا سمجھنا انسانی فہم کے لیے نہایت آسان ہو، اور جس کی ہر بات نہایت اطمینان بخش طریقے سے عمل میں لائی جاسکتی ہو، اور جس کی کوئی حقیقت اور کوئی خبر مرورزمانہ سے کہنہ نہ ہوسکے۔ وہ یقینا اپنے اندر اتمامِ حجت کی شان بھی رکھتی ہے۔ جہاں اس کا آسان اور قابل عمل ہونا اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہے وہیں وہ اہل دنیا کے لیے اتمامِ حجت بھی ہے۔ ایسی اوصاف کی حامل کتاب پر بھی اگر قریش اور دیگر مخالفین ایمان نہیں لاتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسی بیماری میں مبتلا ہیں جس بیماری میں وہ قومیں مبتلا تھیں جن پر اس سے پہلے عذاب نازل ہوچکا ہے۔
Top