Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 200
كَذٰلِكَ سَلَكْنٰهُ فِیْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِیْنَؕ
كَذٰلِكَ : اسی طرح سَلَكْنٰهُ : یہ چلایا ہے (انکار داخل کردیا ہے) فِيْ قُلُوْبِ : دلوں میں الْمُجْرِمِيْنَ : مجرم (جمع)
ہم مجرموں کے دلوں میں اس کو اسی طرح گزارتے ہیں
کَذٰلِکَ سَلَکْنٰـہُ فِیْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِیْنَ ۔ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ حَتّٰی بَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ ۔ فَیَاْتِیَھُمْ بَغْتَۃً وَّھُمْ لاَ یَشْعُرُوْنَ ۔ فَیَقُوْلُوْا ھَلْ نَحْنُ مُنْظَرُوْنَ ۔ (الشعرآء : 200 تا 203) (ہم مجرموں کے دلوں میں اس کو اسی طرح گزارتے ہیں۔ یہ اس پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ عذاب الیم نہ دیکھ لیں۔ پس وہ ان پر اچانک آدھمکے گا اور وہ اس سے بیخبر ہوں گے۔ اس وقت کہیں گے کیا ہمیں کچھ مہلت ملے گی۔ ) قرآن کریم کی دعوت قبول نہ کرنے کا سبب قرآن کریم کی حقانیت، فہم و افہام کے لیے اس کی سہولت، پہلی آسمانی کتابوں اور علماء بنی اسرائیل کی شہادت کے بعد قرآن کریم کے قاری کو یہ توقع پیدا ہوجاتی ہے کہ اب قرآن کریم کی دعوت کے قبول کرنے کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ اس کے مخاطب لوگ یقینا آگے بڑھ کر اسے ہاتھوں ہاتھ لیں گے، لیکن جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ قریش اور دیگر اہل مکہ کے انکار اور تمرد میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ ان کی مخالفت ضد اور عناد تک جا پہنچی ہے تو وہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ آخر اس کا سبب کیا ہے۔ قرآن کریم نے اسی حیرت واستعجاب کو دور کرنے کے لیے اس کے حقیقی سبب کی طرف اشارہ کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ جب کسی شخص کا معدہ بگڑتا ہے اور نظام انہضام میں خرابی پیدا ہوتی ہے تو رفتہ رفتہ اس کی یہ حالت ہوجاتی ہے کہ بہتر سے بہتر غذا اور مقوی اور مرغن اشیاء بھی نہ صرف اسے ہضم نہیں ہوتیں بلکہ اس کے اندر ہر اچھی سے اچھی غذا کے بارے میں ایک ایسی نفرت پیدا ہوجاتی ہے کہ اسے ان کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں ہوتا۔ زندگی کی بقا کے لیے اگر زبردستی اسے کھانے پینے پر مجبور بھی کیا جاتا ہے تو وہ اس طرح کھاتا ہے جیسے اسے کوئی سزا دی جارہی یا زہر نگلنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ بالکل اسی طرح انسان کے دل و دماغ بھی بیمار ہوتے ہیں۔ ذکر سے دوری اور ہر بھلی بات سے مہجوری رفتہ رفتہ ان کے اندر اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول اور اس کے دین کی ہر بات سے سرکشی اور عناد کی کیفیت پیدا کردیتی ہے۔ وہ وحی الٰہی کو واہمہ خیال کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کے رسول کو کبھی مجنون کہتا اور کبھی مسحور قرار دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی کتاب کو اساطیر الاولین سمجھتا ہے، معجزات کو جادو قرار دے کر مسترد کردیتا ہے۔ یہ قریش اور دیگر لوگ ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہیں۔ ان کے کانوں سے گزر کر دلوں تک اگر قرآن پہنچتا بھی ہے تو ایسے نہیں جیسے کوئی مرغوب چیز پہنچتی ہے بلکہ ایسے پہنچتا ہے جیسے سلاخ گزاری جاتی ہے اور ان کے دلوں میں اس سے مزید نفرت کی آگ بھڑکتی ہے۔ یہ لوگ قبولیتِ حق سے محروم ہوچکے ہیں۔ ان کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے، یہ کبھی ایمان نہیں لائیں گے تاوقتیکہ وہ عذاب الیم کو نہ دیکھ لیں۔ لیکن عذاب الیم اطلاع دے کر نہیں آتا کہ کوئی شخص اگر توبہ کرنا چاہے تو توبہ کرلے، وہ تو اچانک آدھمکتا ہے اور اس کے بعد قبولیتِ توبہ کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ یہ لوگ جب اس عذاب کو دیکھیں گے تو پھر نہایت حسرت سے تمنا کریں گے کہ کاش انھیں کچھ مہلت دے دی جائے تو وہ ایمان لے آئیں۔ لیکن اب مہلت کا وقت گزر چکا ہوگا۔
Top