Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 204
اَفَبِعَذَابِنَا یَسْتَعْجِلُوْنَ
اَفَبِعَذَابِنَا : کیا پس ہمارے عذاب کو يَسْتَعْجِلُوْنَ : وہ جلدی چاہتے ہیں
کیا یہ لوگ ہمارے عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں
اَفَبِعَذَابِنَا یَسْتَعْجِلُوْنَ ۔ اَفَرَئَ یْتَ اِنْ مَّتَّعْنٰـہُمْ سِنِیْنَ ۔ ثُمَّ جَآئَ ھُمْ مَّا کَانُوْا یُوْعَدُوْنَ ۔ مَآاَغْنٰی عَنْھُمْ مَّا کَانُوْا یُمَتَّعُوْنَ ۔ (الشعرآء : 204 تا 207) (کیا یہ لوگ ہمارے عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں۔ کیا آپ نے غور کیا کہ اگر ہم ان کو چند سال تک اور بہرہ مند رکھیں۔ پھر ان کے پاس وہی چیز آجائے جس سے ان کو ڈرایا جارہا ہے۔ تو ان کے کس کام آئے گا جس سے وہ بہرہ مند رکھے گئے تھے۔ ) عذاب کے لیے جلدی مچانے والوں کو جواب قرآن کریم کا اسلوب چونکہ خطابی اسلوب ہے اور قرآن کریم کی آیات خطبے کی صورت میں آپ ﷺ پر نازل ہورہی تھیں جسے آپ ﷺ لوگوں کو پڑھ کے سناتے تھے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ لوگوں کے سامنے آپ ﷺ یہ خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔ تو تحریر اور تقریر یا خطبے میں یہ فرق ہوتا ہے کہ تحریر میں کوئی خلاء بھی مفہوم و مدعا کی وضاحت میں رکاوٹ بن جاتا ہے، لیکن تقریر اور خطبے میں سامعین کے رویئے کا حوالہ ان کا طرزعمل یا خطیب کا کوئی اشارہ ایسے خلاء کو بھرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ پیش نظر آیات میں بھی ایسی ہی کیفیت معلوم ہوتی ہے کہ قریش اور اہل مکہ کی مسلسل سرکشی اور بغض وعناد نے بالآخر دعوت کے اس مرحلے تک انھیں پہنچا دیا کہ آپ انھیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کی وارننگ دینے لگے لیکن دیگر تباہ ہونے والی قوموں کی طرح بجائے اس کے کہ وہ اس انذار سے سہم جاتے، مزید دلیر ہو کر جلدی عذاب لانے کا مطالبہ کرنے لگے کہ اگر عناد اور سرکشی کے باعث اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب آیا کرتا ہے تو پھر ہم پر عذاب آنے میں تاخیر کیوں ہے۔ چناچہ ان کے مطالبے کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ وہ اس تاخیر کو عذاب کے وہم ہونے پر محمول کررہے ہیں کہ اگر عذاب کو آنا ہوتا تو اب تک آچکتا، یہ محض ڈراوا ہے جس سے ہمیں ڈرایا جارہا ہے، حقیقت کچھ نہیں۔ لیکن وہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ عذاب میں تاخیر تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک رحمت ہے جس سے انھیں سنبھلنے کا موقع دیا جارہا ہے۔ اگر ان کا رویہ نہ بدلا اور قبولیتِ حق کے راستے سے ان کا انحراف اسی طرح جاری رہا تو یہ تاخیر ان کے کسی کام نہیں آئے گی۔ بالآخر انھیں اسی عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا جس سے انھیں ڈرایا جارہا ہے۔
Top