Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 216
فَاِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَۚ
فَاِنْ : پھر اگر عَصَوْكَ : وہ تمہاری نافرمانی کریں فَقُلْ : تو کہ دیں اِنِّىْ بَرِيْٓءٌ : بیشک میں بیزار ہوں مِّمَّا : اس سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
اگر وہ آپ کی نافرمانی کریں تو ان سے کہہ دیجیے کہ جو کچھ تم کرتے ہو میں اس سے بری الذمہ ہوں
فَاِنْ عَصَوْکَ فَـقُلْ اِنِّیْ بَرِیْٓ ئٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ ۔ (الشعرآء : 216) (اگر وہ آپ کی نافرمانی کریں تو ان سے کہہ دیجیے کہ جو کچھ تم کرتے ہو میں اس سے بری الذمہ ہوں۔ ) آیت کے مفہوم کی وضاحت اس کا ایک مطلب تو یہ ہوسکتا ہے کہ آپ کے قریبی عزیزوں میں سے جو لوگ آپ کے انذار کی پرواہ نہ کریں تو آپ ان سے صاف الفاظ میں اعلانِ براءت کردیں کہ جو کچھ تم لوگ کررہے ہو، میں اس کی ذمہ داری سے بری ہوں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے والی چیز اس راستے پر چلنا ہے، میں جس کی دعوت دے رہا ہوں۔ اور ان عقائد و اعمال کا اتباع کرنا ہے جس کا میں حکم دے رہا ہوں۔ اس سے ہٹ کر میں تمہارے کسی کام نہیں آسکتا۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس ارشاد کا تعلق صرف رشتہ داروں سے نہ ہو بلکہ سب کے لیے عام ہو، جن میں رشتہ دار بھی شامل ہیں اور عام لوگ بھی۔ کہ جو لوگ بھی آپ ﷺ کا اتباع کریں تو آپ ﷺ ان کے ساتھ نہایت ہمدردی اور غمگساری کا معاملہ کریں کیونکہ وہی لوگ آپ کا اثاثہ ہیں۔ لیکن جو لوگ ایمان لانے کے باوجود آپ کی نافرمانی کریں، انھیں خبردار کردیں کہ میں تمہارے اعمال کی ذمہ داری سے بری ہوں، یعنی میں تمہاری شفاعت نہیں کروں گا۔ اگرچہ بعض اہل علم نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ اس آیت کریمہ میں آنحضرت ﷺ کو ان کے اعمال سے براءت کے اظہار کا حکم دیا گیا ہے، خود ان لوگوں سے نہیں۔ ممکن ہے قیامت کے دن وہ اپنی سزا پالینے کے بعد آنحضرت ﷺ کی شفاعت کے مستحق ٹھہریں اور نجات پاجائیں۔ واللہ اعلم۔
Top