Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 221
هَلْ اُنَبِّئُكُمْ عَلٰى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰطِیْنُؕ
هَلْ : کیا اُنَبِّئُكُمْ : میں تمہیں بتاؤں عَلٰي مَنْ : کسی پر تَنَزَّلُ : اترتے ہیں الشَّيٰطِيْنُ : شیطان (جمع)
کیا میں تمہیں بتائوں کہ شیاطین کس پر اترتے ہیں
ھَلْ اُنَبِّئُـکْمْ عَلٰی مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰـطِیْنُ ۔ تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِـیْمٍ ۔ یُّلْقُوْنَ السَّمْعَ وَاَکْثَرُھُمْ کٰذِبُوْنَ ۔ (الشعرآء : 221 تا 223) (کیا میں تمہیں بتائوں کہ شیاطین کس پر اترتے ہیں۔ وہ اترتے ہیں ہر جھوٹ گھڑنے والے بدکار پر۔ وہ اپنے کان (شیطانوں کی طرف) لگائے رکھتے ہیں، اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہیں۔ ) شیاطین کن پر اترتے ہیں گزشتہ آیات میں ہم نے پڑھا ہے کہ مخالفین آنحضرت ﷺ پر الزام لگاتے تھے کہ آپ ﷺ ایک کاہن ہیں، پیغمبر نہیں۔ جس طرح کاہنوں پر شیاطین غیب کی باتیں القاء کرتے ہیں، اسی طرح آپ پر بھی شیاطین یہ کلام القا کرتے ہیں جن کو آپ ہمارے سامنے وحی الٰہی کے نام سے پیش کرتے ہیں۔ چناچہ پروردگار نے گزشتہ آیات میں واضح فرمایا کہ قرآن کریم کا منبع ومصدر کیا ہے اور اس کے واسطہ نزول کے محفوظ ہونے کا عالم کیا ہے۔ اور جس پر یہ کلام نازل ہوا ہے اس کا پاکیزگی اور طہارت میں کیا مقام و مرتبہ ہے۔ جو شخص ان باتوں کو نگاہ میں رکھے گا وہ کبھی اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوسکتا کہ آنحضرت ﷺ کاہن ہیں اور آپ ﷺ پر یہ کلام شیطانی القاء ہے۔ اب خلاصہ بحث کے طور پر مخالفین کو خطاب کرکے فرمایا جارہا ہے کہ اگر تم واقعی جاننا چاہتے ہو کہ شیاطین کن پر اترتے ہیں تو آئو میں تمہیں بتاتا ہوں کہ شیاطین کیسے لوگوں پر اترا کرتے ہیں۔ یہ درحقیقت کاہنوں کی تصویر ہے جن کا دعویٰ یہ ہے کہ ان کے پاس شیاطین آتے ہیں۔ پیش نظر آیات میں ان کی صفات بیان کی گئی ہیں۔ ان کی پہلی صفت یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ یہ اَفَّاک ہوتے ہیں جس کا معنی ہے جھوٹا، جھوٹ گھڑنے والا، لاغی اور لپاٹیا۔ یعنی یہ عام لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لیے جھوٹ گھڑتے ہیں اور پھر اس دعوے کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ کہ یہ باتیں ان پر غیب سے القا ہوئی ہیں۔ ان کی دوسری صفت اَثِـیْمٍ بیان کی گئی ہے، اس کا معنی ہے گنہگار۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ نیکی سے دور اور گناہ کے رسیا ہوتے ہیں۔ انھیں اچھائی برائی میں کوئی تمیز نہیں ہوتی، حلال و حرام میں فرق نہیں کرتے، زندگی ان کی غلط کاموں اور گناہ کی باتوں میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہے۔ اور تیسری صفت ان کی یہ بیان ہوئی ہے کہ ان کا ذریعہ علم شیاطین سے جھوٹ موٹ باتیں سننا اور پھر اپنی طرف سے بہت سے جھوٹ ملا کر لوگوں کے کانوں میں پھونکنا ہیں۔ اس کی تشریح ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے جو بخاری نے حضرت عائشہ ( رض) سے روایت کی ہے کہ ” بعض لوگوں نے نبی کریم ﷺ سے کاہنوں کے بارے میں سوال کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا وہ کچھ نہیں۔ انھوں نے عرض کیا، یارسول اللہ ! بعض اوقات تو وہ ٹھیک بات بتا دیتے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا وہ ٹھیک بات جو ہوتی ہے، اسے کبھی کبھار جن لے اڑتے ہیں اور جا کر اپنے دوست کے کان میں پھونک دیتے ہیں۔ پھر وہ اس کے ساتھ جھوٹ کی بہت سی آمیزش کرکے ایک داستان بنا لیتے ہیں۔ “ ان لوگوں کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ احمق لوگ جب کسی معاملے میں غیب کی باتیں معلوم کرنے کے لیے ان کے پاس جاتے ہیں تو یہ لوگ کچھ عملیاتِ سفلیہ کے ساتھ مراقبہ کرتے ہیں اور پھر ایک مقفیٰ کلام کی صورت میں (جو اکثر بالکل بےمعنی یا ذومعانی ہوتا ہے) اپنا الہام پیش کرتے ہیں کہ یہ ان پر غیب سے فلاں جن نے القاء کیا ہے۔ ان کے اس مراقبہ کو یہاں القاء سمع سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس لیے وہ مراقبہ میں اس طرح بیٹھتے ہیں گویا ہاتفِ غیب سے کوئی بات سننے کے لیے کان لگائے ہوئے ہیں۔
Top