Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 32
فَاَلْقٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌۚۖ
فَاَلْقٰى : پس موسیٰ نے ڈالا عَصَاهُ : اپنا عصا فَاِذَا هِىَ : تو اچانک وہ ثُعْبَانٌ : اژدہا مُّبِيْنٌ : کھلا (نمایاں
تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا پھینکا تو یکایک وہ ایک صریح اژدھا بن گیا
فَاَلْقٰی عَصَاہُ فَاِذَا ھِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌ۔ وَّنَزَعَ یَدَہٗ فَاِذَا ھِیَ بَیْضَآئُ لِلنّٰظِرِیْنَ ۔ (الشعرآء : 32، 33) (تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا پھینکا تو یکایک وہ ایک صریح اژدھا بن گیا۔ تو انھوں نے اپنا ہاتھ (بغل سے) باہر نکالا تو وہ یک لخت سب دیکھنے والوں کے سامنے چمک رہا تھا۔ ) معجزات کا اظہور فرعون کے کہنے پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا پھینکا تو اچانک وہ ایک اژدھا بن گیا۔ قرآن کریم نے کسی جگہ اس کے لیے حَیَّۃٌ اور کسی جگہ جَآنٌّ (جو بالعموم چھوٹے سانپ کے لیے بولا جاتا ہے) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور یہاں اسے ثُعْبَانٌ (اژدھا) کہا جارہا ہے۔ اہل علم نے اس کی توجیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ عربی زبان میں سانپ کی جنس کے لیے متعدد الفاظ استعمال ہوئے ہیں حَیَّۃٌ سب کے لیے ایک مشترک لفظ کے طور پر بولا جاتا ہے۔ ثُعْبَانٌ کا لفظ اژدھا کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزے کے لیے ان تین لفظوں کے استعمال کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اپنی جسامت میں تو ایک اژدھا تھا لیکن اپنی پھرتی اور تیزی کے اعتبار سے چھوٹے سانپ کی مانند تھا۔ جہاں تک ہاتھ کا تعلق ہے جسے یدبیضا کہا گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جیسے ہی اپنا ہاتھ بغل میں دبا کر باہر نکالا تو وہ اس طرح چمکتا ہوا دکھائی دیا جیسے سورج چمکتا ہے اور سارا ماحول اس سے جگمگا اٹھا۔
Top