Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 57
فَاَخْرَجْنٰهُمْ مِّنْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍۙ
فَاَخْرَجْنٰهُمْ : پس ہم نے انہیں نکالا مِّنْ : سے جَنّٰتٍ : باغات وَّعُيُوْنٍ : اور چشمے
سو اس طرح ہم نے نکالا انھیں ان کے باغوں اور چشموں سے
فَاَخْرَجْنٰـھُمْ مِّنْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ ۔ وَّکُنُوْزٍوَّمَقَامٍ کَرِیْمٍ ۔ کَذٰلِکَ ط وَاَوْرَثْـنٰـھَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ ۔ (الشعرآء : 57، 58، 59) (سو اس طرح ہم نے نکالا انھیں ان کے باغوں اور چشموں سے اور خزانوں اور ان کی بہترین قیام گاہوں سے۔ (ہم اسی طرح کرتے ہیں، اور ہم نے ان چیزوں کا وارث بنایا بنی اسرائیل کو۔ ) مفسرین کا اختلاف اور آیت کا مفہوم بعض مفسرین نے اس آیت کا یہ مطلب لیا ہے کہ جن باغوں، چشموں، خزانوں اور بہترین قیام گاہوں سے یہ ظالم لوگ نکلے تھے انہی کا وارث اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو کردیا۔ یہ مطلب اگر لیا جائے تو اس کا مفہوم لازماً یہ ہونا چاہیے کہ فرعون کے غرق ہوجانے پر بنی اسرائیل پھر مصر واپس پہنچ گئے ہوں اور آل فرعون کی دولت و حشمت ان کے قبضے میں آگئی ہو۔ لیکن یہ چیز تاریخ سے بھی ثابت نہیں ہے اور خود قرآن مجید کی دوسری تصریحات سے بھی اس آیت کا یہ مفہوم مطابقت نہیں رکھتا۔ سورة المائدہ، سورة الاعراف اور سورة طٰہٰ میں جو حالات بیان کیے گئے ہیں ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کی غرقابی کے بعد بنی اسرائیل مصر کی طرف پلٹنے کی بجائے اپنی منزل مقصود (فلسطین) ہی کی طرف آگے روانہ ہوگئے اور پھر حضرت دائود (علیہ السلام) کے زمانے (1013، 973 ق م) تک ان کی تاریخ میں جو واقعات بھی پیش آئے وہ سب اس علاقے میں پیش آئے جو آج جزیرہ نمائے سینا، شمالی عرب، شرق اردن اور فلسطین کے ناموں سے موسوم ہے۔ اس لیے ہمارے نزدیک آیت کا صحیح مفہوم یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے وہی باغ اور چشمے اور خزانے اور محلات بنی اسرائیل کو بخش دیئے جن سے فرعون اور اس کی قوم کے سردار اور امراء نکالے گئے تھے بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف آل فرعون کو ان نعمتوں سے محروم کیا اور دوسری طرف بنی اسرائیل کو یہی نعمتیں عطا فرما دیں، یعنی وہ فلسطین کی سرزمین میں باغوں، چشموں، خزانوں اور عمدہ قیام گاہوں کے مالک ہوئے۔ اسی مفہوم کی تائید سورة الاعراف کی یہ آیت کرتی ہے۔ فَانْتَقَمْنَا مِنْہُمْ فَاَغْرَقْـنٰـھُمْ فِی الْیَمِّ بِاَنَّھُمْ کَذَّبُوْا بِاٰیٰـتِنَا وَکَانُوْا عَنْھَا غٰفِلِیْنَ ۔ وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوْا یُسْتَضْعَـفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَھَا الَّتِیْ بٰـرَکْنَا فِیْھَا (آیات 136، 137) ” تب ہم نے ان سے انتقام لیا اور انھیں سمندر میں غرق کردیا کیونکہ انھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا اور ان سے بےپرواہ ہوگئے تھے اور ان کی بجائے ہم نے ان لوگوں کو جو کمزور بنا کر رکھے گئے تھے اس ملک کے مشرق و مغرب کا وارث بنادیا جسے ہم نے برکتوں سے مالامال کیا تھا۔ “ یہ برکتوں سے مالامال سرزمین کا استعارہ قرآن مجید میں عموماً فلسطین ہی کے لیے استعمال ہوا ہے اور کسی علاقے کا نام لیے بغیر جب اس کی یہ صفت بیان کی جاتی ہے تو اس سے یہی علاقہ مراد ہوتا ہے۔ مثلاً سورة بنی اسرائیل میں فرمایا اِلَی الْمَسْجِدِالْاَقْصَی الَّذِیْ بَارَکَنَا حَوْلَـہٗ ۔ اور سورة انبیاء میں ارشاد ہوا وَنَجَّیْنٰہُ وَلُوْطًا اِلَی الْاَرْضِ الَّتِیْ بَارَکْنَا فِیْھَا لِلْعٰلَمِیْنَ ۔ اور وَلِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ عَاصِفَۃً تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖ اِلَی الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰـرَکْنَا فِیْھَا۔ اسی طرح سورة سبا میں بھی اَلْقُرْیَ الَّتِیْ بٰـرَکْنَا فِیْھَا کے الفاظ سرزمینِ شام و فلسطین ہی کی بستیوں کے متعلق استعمال ہوئے ہیں۔ (تفہیم القرآن)
Top