Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 78
الَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَهُوَ یَهْدِیْنِۙ
الَّذِيْ : وہ جس نے خَلَقَنِيْ : مجھے پیدا کیا فَهُوَ : پس وہ يَهْدِيْنِ : مجھے راہ دکھاتا ہے
جس نے مجھے پیدا فرمایا، پھر وہ میری رہنمائی کرتا ہے
الَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَھُوَیَھْدِیْنِ ۔ وَالَّذِیْ ھُوَ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِ ۔ وَاِذَا مَرِضْتُ فَھُوَیَشْفِیْنِ ۔ وَالَّذِیْ یُمْیِتُـنِیْ ثُمَّ یُحْیِیْنِ ۔ وَالَّذِیْٓ اَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَلِیْ خَطِٓیْئَـتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِ ۔ (الشعرآء : 78 تا 82) (جس نے مجھے پیدا فرمایا، پھر وہ میری رہنمائی کرتا ہے۔ اور وہ جو مجھے کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی ہے۔ اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو مجھے شفا دیتا ہے۔ اور جو مجھے موت دے گا پھر مجھے زندہ کرے گا۔ اور جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ جزا کے دن میرے گناہ معاف کرے گا۔ ) ربِ حقیقی کی چند صفات رب العالمین میری پرستش اور بندگی کا اس لیے مستحق ہے کہ اس نے مجھے پیدا کیا ہے اور مخالف اور موافق سب جانتے ہیں کہ اس کے تخلیقی عمل میں کوئی دوسرا شریک نہیں۔ انسان پر اللہ تعالیٰ کے بیشمار احسانات ہیں، لیکن سب سے پہلا اور بڑا احسان انسان کو پیدا کرنا ہے کیونکہ باقی سارے مراحل اس کے بعد شروع ہوتے ہیں۔ معمولی عقل کا آدمی بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ جس ذات نے انسان کو تخلیق کیا ہے اس سے ہٹ کر اس کی بندگی اور پرستش کا اور کون حقدار ہوسکتا ہے۔ رب العالمین کے معبود و مسجود ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اس نے انسان کو پیدا کرکے نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس نے انسان کو ہمہ نوع اور ہمہ جہت قسم کی رہنمائی بھی عطا فرمائی ہے۔ انسان جب ایک خوبصورت بچے کی شکل میں دنیا میں آتا ہے تو وجدان کے ذریعے اس کی رہنمائی کی جاتی ہے، پھر حواس کا دیا جلایا جاتا ہے، پھر ضرورت پڑنے پر عقل کا فانوس روشن کردیا جاتا ہے جس کے ذریعے سے انسان جزئیات سے کلیات اور محسوسات سے معقولات تک کا سفر کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ پھر اس کا مزید احسان یہ ہے کہ اس نے جس طرح انسان کی تمام مادی ضروریات کا اہتمام فرمایا، اسی طرح اس کی روحانی ضرورت کا بھی اہتمام فرمایا۔ اور اس کی ہدایت کے لیے نبوت و رسالت کا انتظام کیا۔ ایسی ذات کے مقابلے میں کسی اور کے سامنے سر جھکانا اور پرستش کے آداب بجا لانا اپنی دشمنی کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ صرف ایک اللہ کو مستحقِ عبادت ماننے کی تیسری وجہ یہ ہے کہ جس طرح اس نے مجھے تخلیق فرمایا، پھر میری رہنمائی کا سامان کیا، اسی طرح میری زندگی کی بقا کے لیے اس نے نہ صرف امکانات پیدا فرمائے بلکہ ہر طرح کی غذائی ضرورتوں کو بہم پہنچایا۔ میں بچہ تھا تو اس نے ماں کے سینے میں میری غذا کا سامان کیا، میری ماں کے دل میں مامتا کا دیپ جلایا، جس نے دکھ اٹھا اٹھا کر میری پرورش و پرداخت کا انتظام کیا، میرے باپ کے دل میں شفقت کا بےکنار سمندر پیدا کردیا جس کی وجہ سے اس کے کندھے میری ضرورتوں کے لیے جھک گئے، میرا معدہ جب تک کمزور تھا تو ماں کے دودھ میں مائیت کا عنصر زیادہ رکھا اور دہنیت کا کم۔ اور جب معدہ مضبوط ہوگیا تو دودھ کو گاڑھا کردیا گیا، پھر حواس اور عقل کے ذریعے مجھے غذائی ضرورتیں حاصل کرنے کا طریقہ سکھایا گیا۔ اور زندگی کے ساتھ ساتھ میری رہنمائی اور میری ضروریات عہد بعہد بدلتی چلی گئیں اور ہر موقع پر حالات کے مطابق میرے لیے اسباب فراہم کیے گئے۔ اگر وہ میرا رب میرا یہ سامانِ تربیت نہ کرتا اور اس کی ربوبیت کا فیضان زندگی بھر میرا معاون نہ رہتا تو میں زندگی تو کیا گزارتا، ایک دن کے لیے بھی زندہ نہ رہتا۔ صرف اللہ رب العالمین کے مسجود و معبود ہونے کی چوتھی وجہ یہ ہے کہ جب میں بیمارپڑ جاتا ہوں تو وہ اپنے فضل و رحمت سے مجھے شفا بخشتا ہے۔ اس نے میرے جسم میں ایسے خواص پیدا کردیئے ہیں جو مضر اشیاء سے بچنے اور حیات بخش چیزوں کی طرف لپکنے پر مجھے مجبور کرتے ہیں، میری کھال میں ایسے قوت مدافعت رکھی ہے کہ معمولی سی چبھن بھی اسے محسوس ہوتی اور خودبخود بچائو کا سامان ہوجاتا ہے۔ اور اگر کہیں کوئی زخم ہوجاتا ہے تو خود جسم کے اندر اندمال کی صلاحیت رکھی ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ علاج کی بیشمار سہولتیں اور جڑی بوٹیوں کی شکل میں دوائوں کا ایک جال بچھا دیا گیا ہے۔ اور ایسی عقل عطا کی گئی ہے جو مرض کو بھی پہچانتی ہے اور علاج کو بھی۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ جسم اور اس کی غذا، بیماری اور اس کی مدافعت، مرض اور اس کے علاج اور ادویہ اور جسمانی کیفیت میں ایسی مناسبت رکھی گئی ہے جس کے نتیجے میں اخذورد اور تشحیص و تجویز کے تمام مراحل بحسن و خوبی انجام پاتے ہیں اور آخری بات یہ ہے کہ انسان ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصار میں اور اس کی شفابخشی کے سائے میں زندگی گزارتا ہے۔ وہی رب العالمین میری ہر طرح کی بندگی کا مستحق ہے، جس نے مجھے زندگی کی نعمت بخشی، اور پھر ایک دن مجھے موت دے گا اور پھر لازماً اس کے بعد ایک دن زندہ بھی کرے گا۔ جب اس نے مجھے پیدا کیا تو اس میں اسے کوئی مشکل پیش نہیں آئی، تو اب دوبارہ زندہ کردینے میں کیوں مشکل پیش آئے گی ؟ اس نے زندگی میں ربوبیت کے جن فیوض سے مجھے نوازا اور میری ہدایت کے جیسے جیسے سامان کیے، عدل اور عقل کا تقاضا ہے کہ وہ ایک دن ایسا لائے جب وہ مجھ سے ان تمام احسانات کا حساب مانگے اور وہ مجھ سے پوچھے کہ میں نے ان تمام احسانات کا شکر ادا کیا، یا ناشکری پر کمر باندھے رکھی اور آخر میں فرمایا کہ جب وہ آخری دن آئے گا جس کی حیثیت روزجزا کی ہے تو میں امید رکھتا ہوں، کیونکہ یہی امید ایک مومن کا اصل سہارا ہے کہ وہ میری خطائیں بخش دے گا اور میری مغفرت فرمائے گا۔
Top