Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 83
رَبِّ هَبْ لِیْ حُكْمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَۙ
رَبِّ : اے میرے رب هَبْ لِيْ : مجھے عطا کر حُكْمًا : حکم۔ حکمت وَّاَلْحِقْنِيْ : اور مجھے ملا دے بِالصّٰلِحِيْنَ : نیک بندوں کے ساتھ
اے میرے رب ! مجھے قوت فیصلہ عطا فرما اور مجھ کو صالحین کے ساتھ ملا
رَبِّ ھَبْ لِیْ حُکْمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ ۔ وَاجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَ ۔ (الشعرآء : 83، 84) (اے میرے رب ! مجھے قوت فیصلہ عطا فرما اور مجھ کو صالحین کے ساتھ ملا۔ اور بعد کے آنے والوں میں مجھے سچی ناموری عطا فرما۔ ) ہجرت کے وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا معلوم ہوتا ہے کہ آپ ( علیہ السلام) نے یہ دعا اعلانِ براءت اور ہجرت کے وقت فرمائی ہے۔ یہاں حکم سے مراد نبوت نہیں جبکہ قرآن کریم میں کئی مواقع پر اس معنی میں یہ لفظ استعمال ہوچکا ہے۔ کیونکہ جب آپ ( علیہ السلام) نے یہ دعا فرمائی ہے اس وقت آپ ( علیہ السلام) کو نبوت عطا ہوچکی تھی۔ اگر بالفرض یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ دعا نبوت سے پہلے کی ہے تو تب بھی ہمیں ایسی کوئی مثال اللہ تعالیٰ کے عظیم بندوں میں نہیں ملتی کہ انھوں نے کبھی نبوت کے لیے دعا کی ہو۔ یہ تو ایک وہبی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ خود ہی جسے چاہتا ہے عطا کردیتا ہے اور پھر یہ ایک ایسی کٹھن ذمہ داری ہے کہ کوئی شخص بھی اپنی چاہت سے اس ذمہ داری کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوسکتا۔ اس لیے یہاں حکم سے مراد علم و حکمت، فہمِ صحیح اور قوت فیصلہ ہی لینا درست ہے۔ آپ ( علیہ السلام) اپنے گھر اور قوم سے نکل کر اجنبی وادیوں کی طرف جارہے تھے۔ کچھ خبر نہ تھی کہ آئندہ کیسے حالات پیش آنے والے ہیں اور کس طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑنے والا ہے۔ جب اپنے لوگوں نے آپ ( علیہ السلام) کی دعوت کو قبول نہ کیا تو اجنبی لوگوں سے کیسے امید ہوسکتی ہے کہ وہ آسانی سے اسے قبول کرلیں گے۔ اور پھر یہ بات بھی کہ ان کے مزاج اور معروف سے ناآشنائی کے باعث تبلیغ و دعوت کے کام میں کیسی مشکلات پیش آسکتی ہیں، اس کا اندازہ بھی مشکل تھا۔ اس لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے صحیح قوت فیصلہ کے عطا کرنے کی دعا مانگی۔ کیونکہ غلط فیصلہ آسان کام کو بھی مشکل کردیتا ہے اور صحیح فیصلہ مشکلات پر غالب آنے کے امکانات کھول دیتا ہے۔ اور اجنبی لوگوں میں جاتے ہوئے اپنی قوم سے بڑھ کر بےرخی بلکہ اذیت رسانی کی توقع کی جاسکتی ہے اور ان کے بگڑے ہوئے لوگوں کی طرف سے مزاحمت کے زیادہ خطرات پیش آسکتے ہیں۔ اس لیے آپ ( علیہ السلام) نے صالحین کی معیت اور رفاقت کے لیے استدعا کی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے دین کی نشرواشاعت کے لیے صالحین ہی معاونت کرسکتے تھے اور انھیں کی رفاقت حوصلے کا سامان ہوسکتی تھی۔ دوسری آیت کریمہ میں بعد کے آنے والوں میں آپ ( علیہ السلام) نے لسان صدق کی دعا فرمائی۔ لسان کے معنی شہرت اور چرچا کے ہیں اور صدق کا معنی سچائی اور بلند مقام کے ہیں۔ چونکہ لسان کی اضافت صدق کی طرف ہے، اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ لِسَانَ صِدْقِ کا مفہوم ذکرجمیل اور ثنائے حسن ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بعد میں آنے والی نسلوں میں میرا ذکر، ذکرِ جمیل کے طور پر باقی رکھ۔ یعنی جس طرح بعض ظالم و جابر لوگ اپنے ظلم و جبر کے باعث لوگوں کے دلوں میں ایسی یاد چھوڑ جاتے ہیں کہ دنیا ہمیشہ ان پر لعنت بھیجتی اور ان کے ظلم پر تنقید کرتی رہتی ہے۔ اسی طرح میری زندگی خلق خدا کے لیے روشنی کا مینار بنا، مجھے انسانیت کے محسنوں میں شمار فرما۔ بعد کی آنے والی نسلیں ہمیشہ میرے کارناموں اور میری قربانیوں کو اچھے لفظوں میں یاد رکھیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے آپ ( علیہ السلام) کی یہ دعا اس طرح قبول فرمائی کہ آپ ( علیہ السلام) کے بعد آنے والی نسلوں میں آج تک آپ ( علیہ السلام) کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔ تاریخ میں ہمیں ایسی اور کوئی مثال نہیں ملتی کہ تمام آسمانی مذاہب کے ماننے والے کسی ایک شخصیت کو اس قدر احترام سے یاد کرتے ہوں۔ مشرکینِ عرب اپنے آپ کو آپ ( علیہ السلام) کی ملت کا امین سمجھتے ہیں۔ اہل کتاب آپ ( علیہ السلام) کو اپنا پیشوا سمجھتے ہیں اور ہر مسلمان اپنی نماز میں آپ ( علیہ السلام) پر اور آپ ( علیہ السلام) کی آل پر درود بھیجتا ہے۔ اور ہر سال آپ ( علیہ السلام) کی سنت کو تازہ کرتے ہوئے لاکھوں انسان لاکھوں جانوروں کی قربانی دیتے ہیں اور ہر ممبر سے آپ ( علیہ السلام) کی اثرآفریں قربانی کا تذکرہ ہوتا ہے۔
Top