Ruh-ul-Quran - An-Naml : 14
وَ جَحَدُوْا بِهَا وَ اسْتَیْقَنَتْهَاۤ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّ عُلُوًّا١ؕ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ۠   ۧ
وَجَحَدُوْا : اور انہوں نے انکار کیا بِهَا : اس کا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ : حالانکہ اس کا یقین تھا اَنْفُسُهُمْ : ان کے دل ظُلْمًا : ظلم سے وَّعُلُوًّا : اور تکبر سے فَانْظُرْ : تو دیکھو كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والے
انھوں نے سراسر ظلم اور غرور کے سبب سے ان نشانیوں کا انکار کیا حالانکہ دل ان کے قائل ہوچکے تھے، پس دیکھ لیجئے کہ ان مفسدوں کا انجام کیسا ہوا
وَجَحَدُوْا بِھَا وَاسْتَیْـقَـنَـتْـھَآ اَنْفُسُھُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ط فَانْظُرْکَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِیْنَ ۔ (النمل : 14) (انھوں نے سراسر ظلم اور غرور کے سبب سے ان نشانیوں کا انکار کیا حالانکہ دل ان کے قائل ہوچکے تھے، پس دیکھ لیجئے کہ ان مفسدوں کا انجام کیسا ہوا۔ ) منکرین کے انکار کا اصل سبب فرعون، آل فرعون اور دیگر اہل مصر کے سامنے ملک بھر کے جادوگروں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مقابلہ ہوا۔ اور سب دیکھنے والوں کے سامنے ساحرانِ مصر نے اعلان کیا کہ یہ جادو نہیں، معجزے کی قاہری اور صداقت کی بالادستی ہے اور ہم اس سچائی کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں۔ اسی طرح پورے ملک پر قحط اور طوفان اور ٹڈی دل کا ٹوٹ پڑنا اور مینڈکوں اور سرسریوں کے کے بیشمار لشکروں کا امنڈ آنا کسی جادو کا کرشمہ نہیں ہوسکتا۔ یہ ایسے کھلے ہوئے معجزے تھے جن کے سامنے دل جھک گئے۔ لیکن مفادات کی دنیا نہ اجڑ سکی، غرور اور تکبر کا سر نہ جھک سکا۔ ان کے سرداروں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ ہمارے سر کٹ تو سکتے ہیں لیکن اس صداقت کے سامنے جھک نہیں سکتے جس صداقت کا اعلان ان زبانوں سے ہورہا ہے جو ہمارے غلاموں کی زبانیں ہیں اور جنھیں کسی طرح بھی ہم اپنی ہمسری کے لائق نہیں سمجھتے۔ قرآن کریم نے ان کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا أَ نُوْمِنُ لِبَشْرَیْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُھُمَا لَنَا عَابِدُوْنَ ” کیا ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں کی بات مان لیں حالانکہ ان کی قوم ہماری غلام ہے۔ “ اس کا مطلب یہ ہے کہ حق کے انکار کا اصل سبب حقیقت کا مخفی ہونا نہیں بلکہ لوگوں کا ظلم و استکبار ہے جو ان کی بصارت اور بصیرت دونوں کو چھین لیتا ہے۔
Top