Ruh-ul-Quran - An-Naml : 15
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ عِلْمًا١ۚ وَ قَالَا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰى كَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا : اور تحقیق دیا ہم نے دَاوٗدَ : داود وَسُلَيْمٰنَ : اور سلیمان عِلْمًا : (بڑا) علم وَقَالَا : اور انہوں نے کہا الْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْ : وہ جس نے فَضَّلَنَا : فضیلت دی ہمیں عَلٰي : پر كَثِيْرٍ : اکثر مِّنْ : سے عِبَادِهِ : اپنے بندے الْمُؤْمِنِيْنَ : مون (جمع)
اور ہم نے دائود اور سلیمان (علیہما السلام) کو علم عطا کیا اور انھوں نے کہا کہ شکر ہے اس اللہ کے لیے جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عطا فرمائی
وَلَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ عِلْمًا ج وَقَا لاَ الْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰی کَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔ (النمل : 15) (اور ہم نے دائود اور سلیمان (علیہما السلام) کو علم عطا کیا اور انھوں نے کہا کہ شکر ہے اس اللہ کے لیے جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ ) انسانی زندگی میں شکر کے اثرات انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایک مکلف مخلوق کی حیثیت سے زمین پر بھیجا۔ اسے شعور و خرد اور قوت امتیاز کی دولت سے بہرہ ور فرمایا، لیکن اس کی آزمائش کے لیے ابلیس اور اس کی ذُرِّیت کو بھی فریب و دجل کی صلاحیتوں سے مسلح فرما کر انسان کے ساتھ ہی زمین پر اتارا۔ البتہ انسانوں پر احسان یہ کیا کہ انھیں شعور و خرد کے ساتھ ساتھ وحی الٰہی کی رہنمائی سے بھی نوازا۔ بار بار پیغمبر بھیجے اور کتابیں اتاریں جن کی تعلیمات نے انسانوں کو ابلیسی قوتوں کی فریب کاریوں سے آگاہی بخشی اور ان کے مقابلہ کرنے کی تدبیر بتائی۔ اور جذبات و خواہشات میں ایک توازن پیدا کرنے اور مفادات کی ہوس کو قابو رکھنے کا سلیقہ سکھایا۔ اور ان کے خیالات و عواطف اور ان کے افکار و عوامل کو صحیح نہج پر رکھنے کے لیے آخرت کا عقیدہ عطا فرمایا اور اس کی فکر پیدا فرمائی۔ اور بار بار یہ بات واضح کی کہ یہی وہ فکر ہے جو تمہیں صراط مستقیم پر چلنے کی ضمانت دے سکتی ہے۔ اور اسی کو نظرانداز کرنے کی صورت میں تم اللہ تعالیٰ کا شکرگزار بننے کی بجائے ظلم اور کبر و غرور کا پیکر بن سکتے ہو۔ چناچہ پیش نظر آیات میں فرعون اور قوم فرعون کی شکل میں ان لوگوں کی مثال بیان فرمائی جنھیں اللہ تعالیٰ نے دولت و حکومت سے نوازا۔ لیکن انھوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ترغیب و ترہیب کے باوجود اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری اور اس کی بندگی کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے ظلم و استکبار کا راستہ اختیار کیا۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ وہ اپنے اقتدار اور وسائل سمیت اللہ تعالیٰ کے عذاب کا شکار ہوگئے اور آج دنیا انھیں عبرت کے طور پر یاد رکھتی ہے۔ اب دوسری مثال حضرت دائود اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کی دی جارہی ہے۔ جنھیں اللہ تعالیٰ نے فرعون سے بڑھ کر عظمت و شوکت عطا فرمائی اور ایسی قوت و اقتدار سے نوازا جس کی ان کے ہمعصر حکمرانوں میں مثال نہیں ملتی۔ لیکن وہ بجائے ظلم اور استکبار کا شکار ہونے کے اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکتے چلے گئے۔ ان کو ایک لمحہ کے لیے یہ گھمنڈ پیدا نہیں ہوا کہ ان کی حکومت و دولت اور قوت و عظمت ان کے اپنے ذاتی کارنامے ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ اسے اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی عطا سمجھا اور ہمیشہ اسی پر اپنے رب کی حمدوثناء کرتے رہے۔ چناچہ دونوں عظیم باپ بیٹے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے انھیں علم کی دولت سے بہرہ ور فرمایا۔ یعنی انھیں سائنس کا علم بھی عطا فرمایا جس سے کام لے کر انھوں نے ایک عظیم سلطنت قائم کی۔ زمین میں چھپے ہوئے قوت کے سرچشموں کو بےنقاب کیا، نئے نئے ایجادات و صنائع سے ملک کو مالامال کردیا۔ اور ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ نے انھیں وہ حکمت و معرفت عطا فرمائی جس نے انھیں کبھی بندگی کے راستے سے ہٹنے نہ دیا۔ ان پر یہ راز منکشف کیا گیا کہ حقیقت میں انسان کے پاس اپنا کچھ بھی نہیں، جو کچھ ہے اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے۔ اور اس پر تصرف کرنے کے جو اختیارات بھی ان کو بخشے گئے ہیں انھیں بھی اللہ تعالیٰ کی ہی مرضی کے مطابق استعمال کیا جانا چاہیے۔ چناچہ یہ اسی علم کا ثمرہ ہے کہ وہ ایک عظیم مملکت کے سربراہ ہو کر بھی اللہ تعالیٰ ہی کا شکر ادا کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ اس کی دین ہے، ہماری کوئی ذاتی خصوصیت نہیں۔ اور بھی مومن بندے یہاں ایسے موجود تھے جنھیں خلافت عطا کی جاسکتی تھی، لیکن ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس فضیلت سے نوازا، تو یہ اس کا فضل و احسان ہے جس کی بجاآوری ہم پر لازم ہے۔
Top