Ruh-ul-Quran - An-Naml : 17
وَ حُشِرَ لِسُلَیْمٰنَ جُنُوْدُهٗ مِنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ وَ الطَّیْرِ فَهُمْ یُوْزَعُوْنَ
وَحُشِرَ : اور جمع کیا گیا لِسُلَيْمٰنَ : سلیمان کے لیے جُنُوْدُهٗ : اس کا لشکر مِنَ : سے الْجِنِّ : جن وَالْاِنْسِ : اور انسان وَالطَّيْرِ : اور پرندے فَهُمْ : پس وہ يُوْزَعُوْنَ : روکے جاتے تھے
اور ( حضرت) سلیمان کے جائزے کے لیے جنوں، انسانوں اور پرندوں میں سے ان کے لشکر جمع کیے گئے تھے اور ان کی درجہ بندی کی جارہی تھی
وَحُشِرَلِسُلَیْمٰنَ جُنُوْدُہٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ وَالطَّیْرِفَہُمْ یُوْزَعُوْنَ ۔ (النمل : 17) (اور ( حضرت) سلیمان کے جائزے کے لیے جنوں، انسانوں اور پرندوں میں سے ان کے لشکر جمع کیے گئے تھے اور ان کی درجہ بندی کی جارہی تھی۔ ) حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی فوج اس آیت کریمہ میں یہ دکھایا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو جن خصوصی عنایات سے نوازا تھا اور آپ ( علیہ السلام) پر ایسی نوازشات کی گئی تھیں جن میں ان کا کوئی ہمسر نہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں صرف انسانوں پر ہی حکومت عطا نہیں کی بلکہ آپ ( علیہ السلام) کو جنوں اور پرندوں پر بھی اقتدار عطا فرمایا۔ بائیبل میں اگرچہ اس کا کوئی ذکر نہیں لیکن تلمود اور ربیوں کی روایات میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ جن بھی آپ ( علیہ السلام) کے لشکروں میں شامل تھے۔ اور آپ ( علیہ السلام) جنوں کے ساتھ ساتھ پرندوں سے بھی خدمت لیتے تھے۔ لیکن وہ لوگ جن کے لیے پیغمبروں کے معجزوں کا ہضم کرنا مشکل ہے اور ان کے نزدیک سب سے بڑا پیمانہ عقل کا پیمانہ ہے اور جو چیز اس پیمانے میں نہیں سماتی وہ اس کا صاف انکار کردیتے ہیں۔ انھوں نے جن اور طیر کی عجیب و غریب تأویلیں کی ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ” جن “ سے مراد پہاڑی قبائل کے وہ لوگ ہیں جنھیں حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے مسخر کرلیا تھا اور وہ ان کے ہاں حیرت انگیز طاقت اور محنت سے کام کرتے تھے۔ اور ” طیر “ سے مراد گھوڑسواروں کے دستے ہیں جو پیدل دستوں کی بہ نسبت بہت زیادہ تیزی سے نقل و حرکت کرتے تھے۔ لیکن قرآن کریم کے الفاظ کو جو شخص بھی غور سے پڑھے گا اگر اسے عربی زبان اور اس کی گرامر سے کچھ بھی مس ہو تو وہ کبھی اسے تسلیم نہیں کرسکتا۔ قرآن کریم نے جن، انس اور طیر تینوں پر الف لام جنس کا استعمال کیا ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ تینوں ایک دوسرے سے مختلف الگ الگ اجناس کے لشکر ہیں اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن اور طیر انسانوں کی جنس میں سے نہیں، ورنہ جن اور طیر کے درمیان انس کا لفظ استعمال کرنے کی بجائے اَلْجِنُّ وَالطَّیْرُ مِنَ الْاِنْسِکہا جاتا۔ یعنی جن اور طیر انسانوں ہی میں سے ہیں یا انسان کی جنس میں سے۔ لیکن ان تینوں کو مستقل طور پر الف لام تعریف کے ساتھ ذکر کرنا اس کے سوا کوئی معنی نہیں رکھتا کہ جن اور طیر انسان کے علاوہ کوئی اور مخلوق ہیں۔ اور اگر جن سے مراد پہاڑی قبائل لیے جائیں اور طیر سے مراد گھوڑ سوار دستے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ الگ الگ لشکر نہیں بلکہ انسانوں کی جنس میں سے دو لشکر ہیں جو اپنی بعض خصوصیات میں منفرد واقع ہوئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ محاورے میں کسی انسان کو اس کے فوق العادت کام کی وجہ سے جن اور کسی تیز رفتار آدمی کو پرندہ کہہ دیا جاتا ہے، لیکن اس کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ جن کا معنی طاقتور آدمی اور پرندے کا معنی تیز رفتار انسان ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ علامہ شبلی کو جب اطلاع ملی کہ حسرت موہانی نے اب کوئی سٹور کھول لیا ہے، تو انھوں نے انھیں خط لکھا کہ تم کبھی شاعری کرتے ہو، کبھی سیاسی مشاغل میں کھو جاتے ہو، کبھی جیل کاٹتے ہو اور کبھی جلوس نکالتے ہو اور اب تم نے ایک سٹور کھول لیا ہے، تم ایک آدمی ہو یا جن ہو۔ تو کیا اس کا ایک مطلب یہ سمجھ لیا جائے کہ حسرت موہانی انسان نہیں رہے، جن ہوگئے۔ ہم جب کسی حسین عورت کو دیکھتے ہیں تو اسے پری سے تعبیر کرتے ہیں، لیکن کوئی شخص یہ نہیں کہتا کہ حسین عورتیں پریاں ہوتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ محاورات میں عام طور پر بعض دفعہ الفاظ کو حقیقی کی بجائے مجازی معنی میں لیا جاتا ہے۔ اور اہل لغت و فصاحت کے یہاں یہ بات مُسلَّم ہے کہ کسی کلام میں کسی لفظ کو حقیقی معنی چھوڑ کر مجازی معنی میں صرف اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جبکہ آس پاس کوئی واضح قرینہ ایسا موجود ہو جو اس کے مجاز ہونے پر دلالت کرتا ہو۔ ورنہ حقیقی معنی کو چھوڑنا کسی طرح بھی جائز نہیں ہوتا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں آخر ایسا کون سا قرینہ پایا جاتا ہے جس سے یہ گمان کیا جاسکے کہ جن اور طیر کے الفاظ اپنے حقیقی لغوی معنوں میں نہیں بلکہ مجازی معنوں میں استعمال کیے گئے ہیں۔
Top