Ruh-ul-Quran - An-Naml : 2
هُدًى وَّ بُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِیْنَۙ
هُدًى : ہدایت وَّبُشْرٰي : اور خوشخبری لِلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کے لیے
یہ ہدایت و بشارت ہے ان ایمان لانے والوں کے لیے
ھُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ ۔ الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَھُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ ۔ (النمل : 2، 3) (یہ ہدایت و بشارت ہے ان ایمان لانے والوں کے لیے۔ جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہی ہیں جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں) کتاب کی دو خصوصیات ہدایت، بشارت اس کتاب کی دو خصوصیات کو ذکر کیا گیا۔ ایک یہ کہ وہ ہدایت ہے اور دوسرا یہ کہ وہ بشارت ہے۔ اس میں جو بات سب سے پہلے ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کتاب کا کام ہدایت دینا اور بشارت دینا ہے۔ اس لحاظ سے اسے مصدر کی بجائے اسم فاعل کی صورت میں لانا چاہیے تھا لیکن یہاں دونوں صفات کو مصدر کی صورت میں لایا گیا ہے۔ اس میں دراصل اس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ یہ کتاب ہدایت اور بشارت کے وصف میں اپنے کمال کو پہنچی ہوئی ہے۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے کسی کو آپ سخی کہنے کی بجائے مجسم سخاوت اور حسین کہنے کی بجائے ازسرتاپا حسن کہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی سخاوت میں اس حد تک بڑھا ہوا ہے کہ گویا خود سخاوت بن گیا ہے اور اپنے حسن اور خوبصورتی میں اس درجہ کو پہنچ گیا ہے کہ خود اسے حسن کہا جانا چاہیے۔ اور دوسری بات جس کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ کتاب سب کے لیے ہدایت ہے۔ اپنے اپنے مقام و مرتبہ اور کیفیت کے مطابق ہر شخص اس سے ہدایت حاصل کرسکتا ہے۔ البتہ یہ بشارت صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو اسے قبول کرتے اور اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بالفعل ہدایت ہے۔ لیکن نتیجے اور آخرت کے اعتبار سے بشارت اور خوشخبری ہے۔ ہدایت کی شرائط دوسری آیت کریمہ میں ہدایت کے لیے کچھ شرائط کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم راہ راست کی طرف سب کو متوجہ کرتا ہے۔ لیکن اس راستے پر چلنے کے لیے جب تک طبیعت میں آمادگی پیدا نہ ہو اس وقت تک وہ اپنی آغوش اس کے لیے نہیں کھولتا۔ اس آمادگی ہی کو ایمان کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے جس کا آغاز اقرار سے ہوتا ہے اور جس کا اتمام عمل اور اطاعت سے گزرتے ہوئے قلبی تصدیق پر ہوتا ہے۔ اور اس کی وسعت میں توحید، رسالت اور آخرت بھی شامل ہیں۔ یعنی جو شخص ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان تینوں باتوں پر یقین رکھتا ہو۔ اور اس کے ساتھ ساتھ دوسری شرط یہ ہے کہ وہ قرآن کریم کے اساسی تصورات کو مان کر ہی نہ رہ جائے بلکہ اس راستے پر چلنے اور قرآن کریم کی ہدایات پر عمل کرنے کے لیے کمربستہ بھی ہوجائے۔ اسی کو اطاعت اور اتباع کہتے ہیں۔ دائرہ ایمان میں داخل ہونے کے بعد اطاعت کے لیے سب سے پہلے جو حکم اپنی طرف متوجہ کرتا ہے وہ نماز ہے۔ یعنی جو آدمی سورج نکلنے کے بعد ایمان لاتا ہے، دوپہر کے بعد اسے ظہر کی نماز پڑھنا ہوگی۔ اسی طرح دن کے کسی وقت میں بھی ایمان لانے والا وقت کی پابندی کے ساتھ نماز پڑھنے کا پابند ہے۔ اسی طرح جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا ہے اس کی دولت کے حوالے سے سب سے پہلے زکوٰۃ کا حکم اسے اپنی طرف بلاتا ہے۔ اس لیے ان دو عبادات کا ذکر صرف اس لیے فرمایا گیا ہے کہ اطاعت کے راستے میں سب سے پہلے پیش آنے والے یہ دو احکام ہیں۔ ان دو پر عمل کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایمان لانے والا شخص واقعی اپنے ارادے میں مخلص اور اپنے فیصلے میں سنجیدہ ہے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا ہے کہ آخرت پر یقین لانا ایمان کا لازمی جز ہے۔ لیکن اس کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے قرآن کریم نے ایمان بالآخرت کا دوبارہ ذکر فرمایا کیونکہ عملی زندگی میں اللہ تعالیٰ کا اقرار بھی کسی شخص کو احکام کی اطاعت پر مجبور نہیں کرتا۔ اور نہ اس کے اندر جذبے کی قوت پیدا ہوتی ہے تاوقتیکہ اس کے دل و دماغ میں یہ عقیدہ راسخ نہ ہوجائے کہ مجھے ایک روز اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا ہے اور اپنے ایک ایک عمل کی جوابدہی کرنی ہے۔ جیسے ہی یہ خیال انسان کی سوچ کا حصہ بنتا ہے تو اب اس کے لیے یہ بات ممکن نہیں رہتی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کسی حکم سے سرتابی کرنے کی جرأت کرسکے۔ اس لیے یہاں حصر کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ یہی لوگ ہیں جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ یعنی صرف مان لینے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ یقین کی قوت انھیں عمل پر اکساتی ہے اور اس کے نتیجے میں وہ زندگی وجود میں آتی ہے جو ایک مومن سے مطلوب ہے۔
Top