Ruh-ul-Quran - An-Naml : 27
قَالَ سَنَنْظُرُ اَصَدَقْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ
قَالَ : اس (سلیمان نے کہا سَنَنْظُرُ : ابھی ہم دیکھ لیں گے اَصَدَقْتَ : کیا تونے سچ کہا اَمْ : یا كُنْتَ : تو ہے مِنَ : سے الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
حضرت سلیمان نے کہا ابھی ہم دیکھے لیتے ہیں کہ تم نے سچ کہا یا تم جھوٹوں میں سے ہو
قَالَ سَنَنْظُرُ اَصَدَقْتَ اَمْ کُنْتَ مِنَ الْـکٰذِبِیْنَ ۔ اِذْھَبْ بِّکِتٰبِیْ ھٰذَا فَاَلْقِہْ اِلَیْہِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْھُمْ فَانْظُرْ مَاذَا یَرْجِعُوْنَ ۔ (النمل : 27، 28) (حضرت سلیمان نے کہا ابھی ہم دیکھے لیتے ہیں کہ تم نے سچ کہا یا تم جھوٹوں میں سے ہو۔ میرا یہ خط لے کر جاؤ اور ان کے پاس ڈال دو اور ہٹ کر دیکھو کہ وہ کیا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ ) ہدہد کی عذرخواہی کا جواب ہدہد کی باتیں سننے کے بعد حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم جو اپنی غیرحاضری کا عذر پیش کررہے ہو، ہم ابھی اس کی سچائی معلوم کیے لیتے ہیں، اندازہ ہوجائے گا کہ تم سچ بول رہے ہو یا جھوٹ کہہ رہے ہو۔ آپ ( علیہ السلام) نے ملکہ سبا کے نام ایک نامہ گرامی لکھوایا اور ہدہد کو حکم دیا کہ اسے لے جاؤ اور جن راہوں سے تم وہاں حالات معلوم کرکے آئے ہو، انھیں راہوں پر پرواز کرتے ہوے وہاں پہنچو، اور جا کے یہ میرا خط ان کے سامنے ڈال دو ۔ ڈال دینے کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ( علیہ السلام) کسی انسان کو نہیں، پرندے کو نامہ بر بنا کے بھیج رہے ہیں۔ کسی انسان کو یہ حکم نہیں دیا جاسکتا کہ تم وقت کے سب سے بڑے حکمران کا گرامی نامہ ایک معزز ملکہ کے سامنے ڈال دینا، بلکہ اس کے لیے بہت سے سفارتی آداب ہیں جن کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اپنے حکمران کا مکتوبِ گرامی دوسری کسی حکومت کے سربراہ کے حضور پیش کیا جاتا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ حکم بھی فرمایا کہ میرا خط ان کے سامنے ڈالنے کے بعد پرے ہٹ کر بیٹھ جانا اور دیکھتے رہنا کہ وہ اس خط کو دیکھ کر کیا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ اسی سے اندازہ ہوسکے گا کہ تم نے جو کہانی بیان کی ہے اس کی حقیقت کیا ہے ؟ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ہدہد کو اپنا مکتوب دے کے ملکہ بلقیس کے پاس بھیجنا دلالت کرتا ہے کہ آپ ( علیہ السلام) پہلے سے ملک سبا اور اس کی ملکہ کے حوالے سے نہ صرف معلومات رکھتے تھے بلکہ ان کا معاملہ آپ ( علیہ السلام) کے زیرغور بھی تھا۔ کیونکہ تمام مؤرخین اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ فلسطین اور شام کے اڑوس پڑوس کی حکومتیں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی حکومت کی باج گزار بن چکی تھیں۔ بعض علاقے آپ ( علیہ السلام) نے اپنی حکومت میں شامل کرلیے تھے اور بعض علاقوں کی حاکمیت ان کے حکمرانوں کے پاس اس لیے باقی چھوڑی گئی تھی کہ وہ آپ کی حکومت کے اطاعت گزار اور خراج دینے والے تھے۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ یمن کے ایک علاقے کی نہایت ترقی یافتہ اور دولت مند سلطنت کے بارے میں آپ بالکل بیخبر ہوں اور اگر باخبر بھی ہوں تو اس کے بارے میں کبھی آپ نے غور و فکر نہ کیا ہو۔
Top