Ruh-ul-Quran - An-Naml : 35
وَ اِنِّیْ مُرْسِلَةٌ اِلَیْهِمْ بِهَدِیَّةٍ فَنٰظِرَةٌۢ بِمَ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ
وَاِنِّىْ : اور بیشک میں مُرْسِلَةٌ : بھیجنے والی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف بِهَدِيَّةٍ : ایک تحفہ فَنٰظِرَةٌ : پھر دیکھتی ہوں بِمَ : کیا (جواب) لے کر يَرْجِعُ : لوٹتے ہیں الْمُرْسَلُوْنَ : قاصد
میں ان کے پاس اپنے سفیر ہدیئے کے ساتھ بھیجتی ہوں، پھر دیکھتی ہوں کہ میرے سفیر کیا جواب لے کر لوٹتے ہیں
وَاِنِّیْ مُرْسِلَـۃٌ اِلَیْھِمْ بِھَدِیَّۃٍ فَنٰظِرَۃٌ م بِمَ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ ۔ (النمل : 35) (میں ان کے پاس اپنے سفیر ہدیئے کے ساتھ بھیجتی ہوں، پھر دیکھتی ہوں کہ میرے سفیر کیا جواب لے کر لوٹتے ہیں۔ ) حقیقت کا تجسس البتہ یہ بات کہ کوئی آبرومندانہ حل نکالنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم اس بات کا اندازہ کرسکیں کہ سلیمان کس طرح کے آدمی ہیں۔ وہ محض ایک بادشاہ ہیں یا اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں، جیسا کہ ان کے خط سے گمان ہوتا ہے۔ ان کی حیثیت کا تعین ہوجانے کے بعد پھر ان سے معاملہ کرنا آسان ہوجائے گا۔ چناچہ اس کا اندازہ کرنے کے لیے میں اپنے سفیروں کو تحائف دے کے بھیجتی ہوں۔ اگر وہ بادشاہ ہوئے تو مال و دولت کے حریص ہوں گے اور انھیں زیادہ سے زیادہ دولت کا لالچ دے کر ان سے کوئی مناسب معاملہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کے نبی ہوئے تو پھر ان کی قناعت و بےنیازی سے واضح ہوجائے گا کہ معاملہ محض ملک و دولت کا نہیں بلکہ اصول کا ہے۔ تو پھر ان سے معاملہ اصولی بنیادوں پر کیا جائے گا۔ تو اب میں اپنے قاصدوں کو تحائف دے کے روانہ کررہی ہوں۔ دیکھتے ہیں کہ وہ کیا جواب لے کر لوٹتے ہیں۔
Top