Ruh-ul-Quran - An-Naml : 45
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ فَاِذَا هُمْ فَرِیْقٰنِ یَخْتَصِمُوْنَ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ : اور تحقیق ہم نے بھیجا اِلٰى : طرف ثَمُوْدَ : ثمود اَخَاهُمْ : ان کے بھائی صٰلِحًا : صالح اَنِ : کہ اعْبُدُوا اللّٰهَ : اللہ کی عبادت کرو فَاِذَا : پس ناگہاں هُمْ : وہ فَرِيْقٰنِ : دو فریق ہوگئے يَخْتَصِمُوْنَ : باہم جھگڑنے لگے وہ
اور ہم نے قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو رسول بنا کر بھیجا کہ اللہ کی بندگی کرو، تو وہ دو فریق بن کر آپس میں جھگڑنے لگے
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَـآ اِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاھُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ فَاِذَا ھُمْ فَرِیْـقٰنِ یَخْتَصِمُوْنَ ۔ (النمل : 45) (اور ہم نے قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو رسول بنا کر بھیجا کہ اللہ کی بندگی کرو، تو وہ دو فریق بن کر آپس میں جھگڑنے لگے۔ ) انسان کے بنائو اور بگاڑ کے دو سبب انسان کے بنائو اور بگاڑ کی دو بنیادیں ہیں۔ شکرگزاری و فروتنی اور تمردو استکبار۔ گزشتہ آیات میں شکرگزاری و فروتنی کے مصداق کے طور پر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی سرگزشت سنائی گئی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت و ریاست، دولت و رفاہیت اور جاہ و جلال جنھیں بگاڑ کے اسباب سمجھا جاتا ہے یہ بھی انسان کا کچھ نہیں بگاڑتے، اگر فروتنی و شکرگزاری کا جذبہ انسان میں پیدا ہوجائے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے جیسا جاہ و جلال عطا فرمایا اور جس طرح دنیا کے خزانے ان کے سامنے کھول دیئے گئے اس سے بجائے ان کے اندر علو و استکبار کے پیدا ہونے کے جذبہ شکر میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اور انھوں نے ہر نعمت کو اللہ تعالیٰ کی امانت سمجھ کر اس کا حق ادا کرنے کی فکر کی۔ نتیجہ اس کا سامنے ہے کہ آج ان کی شخصیت حکمرانوں اور دولت مندوں کے لیے نصیحت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ دوسری طرف ہم فرعون اور آل فرعون کو دیکھتے ہیں جنھیں حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے کم درجہ حکومت اور دولت سے بہرہ ور کیا گیا۔ لیکن ان دونوں نعمتوں سے ان لوگوں نے نصیحت حاصل کرنے کی بجائے انھیں علو و استکبار کا ذریعہ بنایا۔ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ اپنے اس رویئے کے باعث وہ اپنے اور اہل ملک کے لیے ایک مصیبت اور آفت بنے رہے۔ اور ان کا یہی رویہ قبولیتِ حق کے راستے میں دیوار بن گیا۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے عذاب کا شکار ہوئے اور بحرقلزم کی موجوں نے انھیں نگل لیا۔ اور فرعون کا جسم آج بھی عبرت کا سامان بن کر ایک میوزیم میں موجود ہے۔ چناچہ اسی سلسلہ نصیحت و عبرت کو آگے بڑھاتے ہوئے قرآن کریم اب خاص عرب کی اقوامِ بائدہ میں سے دو قوموں یعنی قوم ثمود و قوم لوط کے حالات و انجام کو قریش کے سامنے پیش کررہا ہے تاکہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہمیں ان ملکوں کی داستانیں سنائی جارہی ہیں جو ہم سے دور ہیں اور جن سے ہم براہ راست رابطہ نہیں رکھتے۔ یعنی مصر، فلسطین اور یمن۔ اب ان قوموں کے حالات ان کے سامنے بطور عبرت پیش کیے جارہے ہیں جن کی ترقی و سربلندی کے کھنڈرات اور یادگاریں آج بھی ان راستوں میں موجود ہیں جہاں سے وہ تجارتی قافلوں کے ساتھ گزر کے جاتے ہیں۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی دعوت اور اس کا ردعمل سب سے پہلے قوم ثمود اور حضرت صالح (علیہ السلام) کی سرگزشت بیان کی جارہی ہے۔ اور جیسا کہ عرض کیا گیا قوم ثمود وہ قوم ہے قریش جن کے کھنڈرات سے اچھی طرح واقف تھے، اور جن کی تاریخ سینہ بہ سینہ عربوں تک پہنچ چکی تھی اور ان کا بچہ بچہ اس سے واقف تھا۔ اور یہ بھی دکھایا جارہا ہے کہ قوم ثمود کی تباہی جس دعوت کو قبول نہ کرنے کے نتیجے میں ہوئی ہے وہ وہی دعوت تھی جسے آج محمد ﷺ قریش کے سامنے پیش کررہے ہیں۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے جیسے ہی اپنی دعوت اپنی قوم کے سامنے پیش کی تو قوم میں دو گروہ بن گئے۔ ایک گروہ ان لوگوں پر مشتمل تھا جنھوں نے صداقت کی اس آواز کو سنا، اس پر لبیک کہا اور ایمان لے آئے۔ اور دوسرا وہ گروہ تھا جنھوں نے نہ صرف اس دعوت کو قبول نہیں کیا بلکہ مخالفت و معاندت اور اذیت رسانی پر تل گئے اور کوشش کی کہ حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کو اس حد تک ہراساں کردیا جائے کہ وہ خود ہی اس دعوت سے دست کش ہوجائیں۔ قرآن کریم نے ان کے درمیان کشمکش کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے : قَالَ الْمَلَأ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا مِنْ قُوْمِہٖ لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ اَتَعَلَمُوْنَ اَنَّ صَالِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِہٖ ، قَالُوْا اِنَّا بِمَااُرْسِلَ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَ ۔ قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا اِنَّا بِالَّذِیْ اٰمَنْتُمْ بِہٖ کَافِرُوْنَ ۔ (الاعراف : آیت 75۔ 76) (اس کی قوم میں سے جو سردار اپنی بڑائی کا گھمنڈ رکھتے تھے انھوں نے ان لوگوں سے جو کمزور بنا کر رکھے گئے تھے جو ان میں سے ایمان لائے تھے کہا، کیا واقعی تم یہ جانتے ہو کہ صالح اپنے رب کی طرف سے رسول ہیں، انھوں نے جواب دیا، ہم اس چیز پر ایمان رکھتے ہیں جس کو دے کر وہ بھیجے گئے ہیں، ان متکبرین نے کہا جس چیز پر تم ایمان لائے ہو اس کے ہم کافر ہیں۔ ) جس قوم میں بھی اللہ تعالیٰ کے رسول مبعوث ہوئے ہیں انھوں نے جیسے ہی اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی اطاعت کی دعوت اپنی قوم کو دی ہے تو اسی طرح ہر جگہ اہل ایمان اور انکار کرنے والوں کے دو گروہ وجود میں آئے اور ایک کشمکش کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ایمان لانے والے ابتداء میں ہمیشہ وہ لوگ رہے ہیں جنھوں نے آج تک بڑے لوگوں کے ظلم کو برداشت کیا اور وہ ہر لحاظ سے ظلم وتعدی کا نشانہ بنتے رہے۔ جیسے ہی ان کو احساس ہوتا ہے کہ یہ نئی اٹھنے والی آواز ایک نئی زندگی کا پیغام لے کر آئی ہے تو آگے بڑھ کر اسے قبول کرلیتے ہیں۔ لیکن قوم کا وہ بالائی طبقہ جنھوں نے آج تک ان کا استحاصل کیا ہے وہ اس دعوت کو بھی خاموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایمان لانے والوں کو بھی سزا دینے پر تل جاتے ہیں۔ اور یہی کچھ نبی کریم ﷺ اور آپ ﷺ پر ایمان لانے والوں کے ساتھ قریش کی طرف سے ہورہا تھا۔
Top