Ruh-ul-Quran - An-Naml : 65
قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰهُ١ؕ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ
قُلْ : فرما دیں لَّا يَعْلَمُ : نہیں جانتا مَنْ : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین الْغَيْبَ : غیب اِلَّا اللّٰهُ : سوائے اللہ کے وَمَا يَشْعُرُوْنَ : اور وہ نہیں جانتے اَيَّانَ : کب يُبْعَثُوْنَ : وہ اٹھائے جائیں گے
کہہ دیجیے، اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا اور وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ جب اٹھائے جائیں گے
قُلْ لاَّیَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلاَّ اللّٰہُ ط وَمَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ ۔ (النمل : 65) (کہہ دیجیے، اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا اور وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ ) علمِ غیب کی حقیقت گزشتہ آیات میں قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی توحید اور الوہیت پر دلائل دیتے ہوئے اس کی چند صفات کا ذکر فرمایا ہے۔ مثلاً یہ کہا گیا ہے کہ وہی ذات ہے جو آسمانوں اور زمین کی خالق ہے، جس نے آسمان سے پانی اتارا، جس نے زمین کو قوت روئیدگی بخشی اور جس نے خوش منظر اور خوش ذائقہ باغات پیدا کیے۔ جس نے اپنی بیشمار مخلوقات کے لیے زمین کو رہنے کے قابل بنایا، جس نے ان کے درمیان نہریں جاری کیں اور زمین کو ڈولنے سے بچانے کے لیے پہاڑوں کی میخیں گاڑیں۔ اور دو سمندروں کے درمیان میٹھے اور کھاری پانی کی دو روشیں جاری کیں اور دونوں کے درمیان غیرمرئی پردہ حائل کردیا۔ پھر وہی ہے جو محتاج کی دادرسی کرتا ہے، ہر پریشان حال کا دکھ دور کرتا ہے، زمین پر قوموں میں اکھاڑ بچھاڑ کرتا ہے اور ایک کو دوسرے کا جا نشین بناتا ہے اور وہی ذات ہے جس نے بروبحر کی تاریکیوں میں مخلوقات کی رہنمائی فرمائی۔ مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی صفت تخلیق، تدبیر، رزاقی اور ربوبیت اور اس کی صفت ہدایت کو بیان کرنے کے بعد اب اس کے علم محیط کو بیان کررہا ہے، کیونکہ ہر عقلمند آدمی یہ سمجھتا ہے کہ جو ذات ان صفات کے ساتھ موصوف ہے اور دنیا کا کارخانہ جس کی وجہ سے وجود میں آیا اور جس کی تدبیر سے رواں دواں ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ غیرمعمولی علم سے آراستہ نہ ہو۔ کیونکہ اگر وہ رزاق ہے تو جب تک اسے لاکھوں انواع میں بٹے ہوئے حیوانوں اور لاکھوں انواع میں پھیلی ہوئی بیلوں کے بارے میں علم نہیں ہوگا تو اس کی صفت ربوبیت کس طرح ان کے لیے مفید ہوسکتی ہے۔ وہ اگر پریشان حالوں کو سہارا دیتا اور ان کی مشکلات کو دور کرتا ہے تو اگر اسے انسانوں کے احساسات اور ان کی فعلی اور انفعالی صلاحیتوں اور ان کی قوت ادراک اور اس کی تاثیر و تأثر کی کیفیتوں اور اس کے دل و دماغ کی مناسبتوں کا کامل علم نہیں ہوگا تو وہ دل دہی اور دل جوئی کا سامان کیسے کرسکتا ہے، اور انسان کے دکھوں کا تدارک کیسے کرسکتا ہے۔ علیٰ ھذا القیاس اس کی ایک ایک صفت کو سامنے لایئے اور اس سے متعلق مخلوقات کا مراقبہ کیجیے اور پھر اس کی بیشمار انطباق کی شکلوں کا تصور کیجیے تو تب تھوڑا سا اندازہ ہوگا کہ جو ذات بھی اس طرح کی صفات کی مالک ہے وہ جب تک اس غیرمعمولی علم سے آراستہ نہ ہو جس سے تمام مخلوقات تہی دامن ہے اور پھر جس کے علم کی وسعتیں بےکراں نہ ہوں وہ ظاہر ہے کہ اپنی مخلوقات کی نہ ضرورتوں کو پورا کرسکتا ہے اور نہ ان کے لیے رحمت ثابت ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرک قوموں نے جب بھی کسی کو اللہ تعالیٰ کی صفات میں شریک کیا اور استمداد کے لیے ان کے سامنے ہاتھ پھیلایا تو انھوں نے ہمیشہ شریک کی جانے والی قوتوں کے بارے میں یہ یقین کیا کہ وہ علم کی ان تمام وسعتوں سے آراستہ ہیں جو باقی مخلوقات کی رسائی سے باہر ہیں۔ اس لیے پروردگار نے اپنی صفات کو ذکر کرنے کے بعد ضروری سمجھا کہ یہ بات بھی واضح کردی جائے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب کے علم کو نہیں جانتا۔ عالم الغیب اس کے سوا اور کوئی نہیں۔ لیکن مشرک قومیں ہمیشہ اس میں ٹھوکر کھاتی رہی ہیں۔ اور امت مسلمہ جس پر توحید کا ایک ایک گوشہ واضح کردیا گیا ہے اس کے بعض افراد بھی افراط وتفریط میں مبتلا ہوئے بغیر نہیں رہے۔ اس لیے یہ بات جان لینی چاہیے کہ غیب اس علم کو کہتے ہیں جو حواس کی رسائی سے بالا تر ہو اور جسے قوت عقل سے حاصل نہ کیا جاسکے۔ اور علامہ آلوسی کی وضاحت کے مطابق جو کسی کے بتانے سے حاصل نہ ہو۔ جو علم کسی کے بتانے سے حاصل ہوگا چاہے بتانے والا پروردگار ہی کیوں نہ ہو اسے علم غیب نہیں کہا جاسکتا۔ ورنہ تو آج ہر حافظِ قرآن اور ہر عالم دین کو جزواً یا کُلاً عالم الغیب ماننا پڑے گا۔ اسی طرح اہل علم نے اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دوسری تمام صفات کی طرح اس کی یہ صفت بھی قدیم ہے، ذاتی ہے اور غیرمتناہی ہے۔ یعنی ایسا نہیں کہ وہ پہلے کسی چیز کو نہیں جانتا تھا اور اب جاننے لگا ہے بلکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ سے ہر چیز کو اس کے پیدا ہونے سے پہلے بھی اس کی حین حیات میں بھی اور اس کے مرنے کے بعد بھی اپنے علم تفصیلی سے جانتا ہے۔ اور یہ علم اس کو کسی نے سکھایا نہیں بلکہ یہ علم اس کا ذاتی علم ہے۔ نیز اس کے علم کی نہ کوئی حد ہے نہ نہایت۔ اس لیے اہلسنّت یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اولین و آخرین کا علم رکھنے کے باوجود آپ ﷺ کا علم اللہ تعالیٰ کے علم کی طرح قدیم نہیں بلکہ حادث ہے۔ آپ ﷺ کا علم ذاتی نہیں بلکہ عطائی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے سکھانے سے حاصل ہوا۔ آپ ﷺ کا علم غیرمتناہی و غیرمحدود نہیں۔ آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے مطابق آپ ﷺ کے علم کی نسبت اللہ تعالیٰ کے علم محیط کے ساتھ اتنی بھی نہیں جتنی پانی کے ایک قطرہ کو دنیا بھر کے سمندروں سے ہے۔ اسی بنیاد پر اسلام کا یہ بنیادی عقیدہ ٹھہرا کہ عالم الغیب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی دوسرا نہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے اور جس قدر چاہے اپنی معلومات کا کوئی گوشہ کھول دے۔ اور کسی غیب یا بعض غیوب کو اس پر روشن کردے۔ لیکن علم غیب بحیثیتِ مجموعی کسی کو نصیب نہیں۔ اور عالم الغیب ہونے کی صفت صرف اللہ رب العالمین کے لیے مخصوص ہے۔ اس لیے فرمایا وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لاَ یَعْلَمُھَا اِلاَّہُوَ ” اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں، انھیں کوئی نہیں جانتا اس کے سوا۔ “ اور سورة لقمان آیت 34 میں ارشاد فرمایا ” کہ اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، اور وہی بارش نازل کرنے والا ہے اور وہی جانتا ہے کہ مائوں کے رحم میں کیا پرورش پا رہا ہے اور کوئی متنفس نہیں جانتا کہ وہ کیا کمائی کرے گا اور کسی متنفس کو خبر نہیں ہے کہ کس سرزمین میں اس کو موت آئے گی۔ “ قرآن کریم کی یہ تصریحات اس بات میں کسی قسم کا شک نہیں رہنے دیتیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو عالم الغیب سمجھنا اور یہ سمجھنا کہ کوئی دوسرا بھی جَمِیْعُ مَاکَانَ وَمَایَکُوْنُ کا علم رکھتا ہے، قطعاً ایک غیراسلامی عقیدہ ہے۔ بخاری اور مسلم اور تمام بڑی بڑی کتابوں نے صحیح سندوں کے ساتھ حضرت عائشہ ( رض) کا یہ قول نقل کیا ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے ” جس شخص نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ جانتے ہیں کہ کل کیا ہونے والا ہے، اس نے اللہ پر سخت جھوٹ کا الزام لگایا، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی ! تم کہہ دو کہ غیب کا علم اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین کے رہنے والوں میں سے کسی کو بھی نہیں ہے۔ “ ابن المنذر حضرت عبداللہ بن عباس ( رض) کے مشہور شاگرد حضرت عکرمہ ( رض) سے ذکر کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا، یارسول اللہ ! قیامت کب آئے گی ؟ اور ہمارے علاقے میں قحط برپا ہے، بارش کب ہوگی ؟ اور میری بیوی حاملہ ہے، وہ لڑکا جنے گی یا لڑکی ؟ اور یہ تو مجھے معلوم ہے کہ میں نے آج کیا کمایا ہے لیکن یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ کل میں کیا کمائوں گا۔ اور یہ تو مجھے معلوم ہے کہ میں کہاں پیدا ہوا ہوں، یہ فرمایئے میں کہاں مروں گا ؟ ان سوالات کے جواب میں آپ ﷺ نے سورة لقمان کی وہ آیت پڑھی جو اوپر گزر گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پانچ باتوں کا علم کسی کو نہیں دیا۔ اسی طرح حدیث جبرائیل میں جب آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ قیامت کب آئے گی ؟ تو آپ ﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ میں پوچھنے والے سے زیادہ اس بارے میں کوئی علم نہیں رکھتا۔ یعنی نہ حضرت جبرائیل کو معلوم ہے کہ قیامت کب آئے گی اور نہ حضور ﷺ جانتے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا علم جس کی کوئی انتہا نہیں وہ چونکہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے اس لیے اسے علم کہا جاتا ہے، علمِ غیب نہیں کہا جاتا۔ اسی طرح آپ ﷺ کا علم عطائی ہے، ذاتی نہیں۔ جزوی ہے کلی نہیں۔ حادث ہے قدیم نہیں۔ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ علم دیا گیا ہے اور قیامت میں مزید دیا جائے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے علم کے مقابلے میں آپ ﷺ کا علم اتنا بھی نہیں جتنا سوئی کے ناکے کو سمندر میں ڈبونے کے بعد پانی ناکے میں لگارہ جاتا ہے۔ جو لوگ آنحضرت ﷺ کے علم کو عام لوگوں کے علم کی حدود میں محدود کرتے ہیں وہ گستاخی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اور جو آپ ﷺ کے علم کو لامحدود بتاتے ہیں، وہ شرک کی وادی میں داخل ہوجاتے ہیں کیونکہ لامحدود علم صرف اللہ تعالیٰ کا علم ہے۔ واللہ اعلم۔
Top