Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 66
بَلِ ادّٰرَكَ عِلْمُهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ١۫ بَلْ هُمْ فِیْ شَكٍّ مِّنْهَا١۫٘ بَلْ هُمْ مِّنْهَا عَمُوْنَ۠   ۧ
بَلِ ادّٰرَكَ : بلکہ تھک کر رہ گیا عِلْمُهُمْ : ان کا علم فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت (کے بارے) میں بَلْ هُمْ : بلکہ وہ فِيْ شَكٍّ : شک میں مِّنْهَا : اس سے بَلْ هُمْ : بلکہ وہ مِّنْهَا : اس سے عَمُوْنَ : اندھے
بلکہ گم ہوگیا ہے ان کا علم آخرت کے بارے میں، بلکہ وہ اس کے بارے میں شک میں ہیں، بلکہ وہ اس سے اندھے بنے ہوئے ہیں
بَلِ ادّٰرَکَ عِلْمُہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ قف بَلْ ھُمْ فِیْ شَکٍّ مِّنْھَا قف ز بَلْ ھُمْ مِّنْھَا عَمُوْنَ ۔ (النمل : 66) (بلکہ گم ہوگیا ہے ان کا علم آخرت کے بارے میں، بلکہ وہ اس کے بارے میں شک میں ہیں، بلکہ وہ اس سے اندھے بنے ہوئے ہیں۔ ) اِدّٰرَکَ کی تحقیق اِدّٰرَکَ … اصل تَدٰرَکَہے۔ تا کو دال میں ادغام کیا اور ہمزہ کو بڑھا دیا تاکہ ساکن سے ابتداء نہ ہو۔ جس طرح تَثَاقَلَسے اِثَّاقَلَ بن گیا۔ امام فخرالدین رازی اس کی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کا معنی انتہا کو پہنچنا، فنا ہوجانا ہے۔ جب پھل پک جاتا ہے اور توڑنے کے قابل ہوجاتا ہے تو عرب کہتے ہیں ادرکت الثمرۃ ” پھل نے اپنی پختگی کی نہایت کو پا لیا۔ “ ایسی صورت میں دو کیفیتیں پیدا ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ درخت پر پھل جب اپنی پختگی کی عمر کو پہنچ جاتا ہے تو گھنا ہو کر ایک دوسرے سے مل جاتا ہے۔ اس سے اہل لغت نے یہ سمجھا کہ اس سے اختلاط اور گڈمڈ ہونے کا مفہوم پیدا ہوگیا ہے اور دوسری کیفیت یہ پیدا ہوتی ہے کہ پھل پک جانے کے بعد توڑ دیا جاتا ہے۔ پھر وہ اپنی شاخ پر لٹکتا ہوا نظر نہیں آتا۔ تو اس سے بعض اہل لغت کے نزدیک گم ہوجانے کا معنی پیدا ہوگیا۔ اس طرح سے آیت کے پہلے جملے کا ترجمہ اس طرح بھی کیا جاسکتا ہے کہ آخرت کے باب میں ان کا علم الجھا ہوا ہے۔ اور اس طرح بھی کیا جاسکتا ہے کہ ان کا علم آخرت کے متعلق گم ہوگیا ہے۔ اس لیے حضرت حسن ( رض) سے اس لفظ کا یہ مفہوم منقول ہے اضمحل علمھم یعنی قیامت کے متعلق ان کا علم مضمحل ہوگیا۔ یعنی وقوع قیامت پر انھیں یقین ہی نہ رہا۔ علامہ قرطبی نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا بل ضل وغاب علمھم فی الاخرۃ فلیس لھم فیھا علم یعنی قیامت پر انھیں پختہ یقین ہے۔ دل ہی دل میں اس کے وقوع کو مانتے ہیں لیکن ہٹ دھرمی اور تعصب کے باعث اقرار کی جرأت نہیں کرسکتے۔ مشرکین کی اصل بیماری الوہیت پر نہایت واضح دلائل قائم کرنے کے بعد مشرکین کے یکسو نہ ہونے کی وجہ بیان کی جارہی ہے، کہ اتنے مضبوط دلائل سے بھی ان کا شرک سے تائب نہ ہونا اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے بارے میں یکسو نہ ہونا اس بناء پر ہے کہ وہ آخرت کے بارے میں شدید خلجان میں مبتلا ہیں۔ بنیادی طور پر یہ لوگ خواہشات کے پرستار ہیں۔ ہَوائے نفس کو اپنا معبود بنا چکے ہیں۔ دنیا کی محبت نے انھیں کسی بڑے فیصلے کے قابل نہیں چھوڑا۔ خواہشات کا اتباع چونکہ ان کی زندگی کا معمول بن گیا ہے اور آخرت پر یقین کرلینے سے ان کا یہ معمول باقی نہیں رہ سکتا۔ پھر انھیں ماننا پڑے گا کہ وہ خود رو پودوں کی طرح پیدا نہیں ہوئے کہ مل دل کے ختم ہوجائیں بلکہ ان کی زندگی کا ایک مقصد ہے۔ اور اسی مقصدیت کے حوالے سے ان سے ان کی زندگی کا حساب مانگا جائے گا۔ انھیں اپنے ایک ایک پل اور ایک ایک عمل کی جوابدہی کرنا ہوگی۔ یہ بات چونکہ ان کے طرزِزندگی سے میل نہیں کھاتی، اس لیے وقوع قیامت کے بارے میں غیرسنجیدگی بلکہ خلجان کا شکار ہوگئے ہیں۔ کائنات اور خود اپنی زندگی کے حقیقی مسائل کے بارے میں انھوں نے کبھی سنجیدگی سے سوچنے کی زحمت نہیں کی۔ انھیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ ان کے فلسفہ حیات اور زندگی کے حقائق کے درمیان کوئی مطابقت ہے یا نہیں۔ چونکہ دلائل کا سامنا نہیں کرسکتے اس لیے کھل کر قیامت کا انکار نہیں کرتے۔ خواہشاتِ نفس سے آزادی کا حوصلہ نہیں اس لیے قیامت کا یقین نہیں کرسکتے۔ اس طرح سے وہ قیامت کے علم کے بارے میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ علم کا سررشتہ ان کے ہاتھ سے چھوٹ گیا ہے۔ اسی الجھائو کا نتیجہ ہے کہ انھوں نے مستقبل سے آنکھیں بند کرلی ہیں۔ خواہشاتِ نفس کی پیروی میں اندھوں کی طرح چلنا اپنا معمول بنا لیا ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ جب کبھی انھیں یہ خیال ہوتا ہے کہ ممکن ہے قیامت برپا ہو ہی جائے تو پھر شفاعت کا غلط عقیدہ ان کا سہارا بن جاتا ہے کہ اگر واقعی قیامت آگئی تو یہ ہمارے دیوی دیوتا اور یا جن قوتوں کے بارے میں ہمیں یقین ہے کہ وہ ہماری سفارش کرسکتی ہیں وہ ہماری سفارش کرکے ہمیں اللہ تعالیٰ سے چھڑا لیں گی، اس لیے ہمیں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔
Top