Ruh-ul-Quran - An-Naml : 7
اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِاَهْلِهٖۤ اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًا١ؕ سَاٰتِیْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ اٰتِیْكُمْ بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ
اِذْ : جب قَالَ : کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِاَهْلِهٖٓ : اپنے گھر والوں سے اِنِّىْٓ : بیشک میں اٰنَسْتُ : میں نے دیکھی ہے نَارًا : ایک آگ سَاٰتِيْكُمْ : میں ابھی لاتا ہوں مِّنْهَا : اس کی بِخَبَرٍ : کوئی خبر اَوْ اٰتِيْكُمْ : یا لاتا ہوں تمہارے پاس بِشِهَابٍ : شعلہ قَبَسٍ : انگارہ لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَصْطَلُوْنَ : تم سینکو
یاد کیجیے جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے گھر والوں سے کہا میں نے ایک آگ دیکھی ہے، میں ابھی وہاں سے تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آتا ہوں یا (اس آگ سے) کوئی شعلہ سلگا کر لاتا ہوں تاکہ تم تاپو
اِذْ قَالَ مُوْسٰی لِاَھْلِـہٖٓ اِنِّیْٓ اٰنَسْتُ نَارًا ط سَاٰ تِیْکُمْ مِّنْھَا بِخَبَرٍ اَوْاٰتِیْکُمْ بِشِھَابٍ قَـبَسٍ لَّعَلَّـکُمْ تَصْطَلُوْنَ ۔ (النمل : 7) (یاد کیجیے جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے گھر والوں سے کہا میں نے ایک آگ دیکھی ہے، میں ابھی وہاں سے تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آتا ہوں یا (اس آگ سے) کوئی شعلہ سلگا کر لاتا ہوں تاکہ تم تاپو۔ ) شِھَابٍ ، شعلۃ نارساطعۃ ” آگ کا چمکتا ہوا شعلہ “ (صحاح) انبیائے کرام کے واقعات بیان کرنے کا سبب والقبس اسم لما یقتبس من جمر وما شبہۃ (قرطبی) ” یعنی وہ آگ جو کسی انگارہ وغیرہ سے سلگائی جائے۔ “ یہ بات ایک سے زیادہ مرتبہ عرض کی جاچکی ہے کہ قرآن کریم کوئی تاریخ کی کتاب نہیں جس میں پہلوں کے واقعات بیان کیے جائیں۔ لیکن یہ بات ایک قاری کو بعض دفعہ سوچ میں ڈال دیتی ہے کہ قرآن کریم بار بار تاریخ کے بعض ابواب کو کیوں دہراتا ہے اور خصوصاً انبیائے کرام کے واقعات کو مختلف حوالوں سے کیوں ذکر کرتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ نبوت اور رسالت کوئی عام تجربے کی چیز نہیں اور نہ یہ کوئی ایسا منصب ہے جسے محنت اور کوشش سے حاصل کیا جاسکے۔ یہ منصب سراسر اللہ تعالیٰ کی حکمت و مشیت کے تحت اچانک کسی کو عطا ہوتا ہے۔ اگر یہ عام تجربے کی چیز ہوتی تو لوگ اپنے تجربوں کے نتائج کے طور پر بہت سے اصول مرتب کرتے اور بہت سی ہدایات مدون ہوتیں۔ یہ چونکہ عطیہ الٰہی اور موہبتِ ربانی ہے۔ اس لیے اس کا تجربہ صرف انہی سعید نفوس کو ہوتا ہے جنھیں اللہ تعالیٰ اس منصب پر فائز کرتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے نبی اور رسول جن قوموں کی طرف مبعوث ہوتے ہیں ان کے لیے ان پیغمبروں کی دعوت عموماً ایک انوکھی اور اجنبی چیز سمجھی گئی ہے اور اس کیخلاف طرح طرح کے شبہات و اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ چناچہ نبوت اور رسالت اور تبلیغ و دعوت کے سلسلے میں ہر پیغمبر کو جس طرح کے حالات سے سابقہ پڑا اور جن کیفیات سے گزرنا پڑا اور جن مشاہدات اور تجربات سے واسطہ پیش آیا ضروری تھا کہ ہر مناسب موقع پر انبیائے کرام اور رسولانِ عظام کے انہی تجربات اور مشاہدات کو آپ ﷺ پر نازل کیا جاتا تاکہ آپ ﷺ ان حالات کی روشنی میں اپنے لیے طمانیت و سکینت کا سامان پاتے اور مزید یہ کہ ان کے حالات کی روشنی میں آپ اپنے لیے حکمت کے وہ راستے تلاش کرسکتے جس پر سابقہ انبیاء کو چلنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اور شاید یہی وہ چیز ہے جس کی اقتداء کا آنحضرت ﷺ کو حکم دیا گیا تھا۔ اور ان کی امتوں کے احوال کی روشنی میں آپ کے مخالفین اگر چاہتے تو اپنے لیے بہت کچھ روشنی کا سامان تلاش کرسکتے تھے۔ چناچہ یہی دو اسباب ہیں جن کی وجہ سے قرآن کریم بار بار انبیائے کرام کی تبلیغ و دعوت کی حکمتوں اور ان کی امتوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو بیان کرتا ہے۔ آنحضرت ﷺ نبی اور رسول ہونے کی حیثیت سے اور اس سلسلے میں پیش آنے والے واقعات کے حوالے سے سب سے زیادہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مشابہت رکھتے تھے۔ اور مزید یہ بات بھی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حالات سب انبیائے کرام سے زیادہ تفصیل کے ساتھ تورات میں موجود تھے۔ اور پھر ان پر ایمان کی مدعی اپنی تمام خصوصیات سمیت ایک قوم بھی موجود تھی۔ اس لیے سب سے زیادہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حالات و تجربات قرآن کریم میں ذکر کیے گئے تاکہ آپ کے لیے تسکین و اطمینان کا باعث ہوسکیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی سرگزشت کے مختلف ابواب قرآن کریم نے مختلف مواقع پر بیان کیے ہیں۔ پیش نظر آیات کریمہ میں ان واقعات کو ذکر کیا جارہا ہے جب آپ ( علیہ السلام) مدین میں آٹھ دس سال گزارنے کے بعد غالباً مصر واپسی کے لیے اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کر نکلے اور راستے میں آپ ( علیہ السلام) کو نبوت سے سرفراز کیا گیا۔ ان واقعات کو ذکر کرنے سے پہلے مناسب ہے کہ اس کے محل وقوع کو بیان کردیا جائے۔ مدین اور طور کا محل وقوع مدین کا علاقہ خلیجِ عقبہ کے کنارے عرب اور جزیرہ نمائے سینا کے ساحل پر واقع تھا۔ وہاں سے چل کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جزیرہ نمائے سینا کے جنوبی حصے میں اس مقام پر پہنچے جو اب کوہ سینا اور جبلِ موسیٰ کہلاتا ہے اور نزول قرآن کے زمانے میں طور کے نام سے مشہور تھا۔ اسی کے دامن میں وہ واقعہ پیش آیا جو یہاں ذکر کیا جارہا ہے۔ یہ جگہ سطح سمندر سے تقریباً پانچ ہزار فیٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہاں رومی سلطنت کے پہلے عیسائی بادشاہ قسطنطین نے 365 عیسوی کے لگ بھگ زمانے میں ٹھیک اس مقام پر ایک کلیسا تعمیر کرا دیا تھا۔ اس کے 200 برس بعد قیصر جسٹینین نے یہاں ایک دیر تعمیر کرایا جس کے اندر قسطنطین کے بنائے ہوئے کلیسا کو بھی شامل کرلیا۔ یہ دیر اور کلیسا دونوں آج تک موجود ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور کے اسی مقام کی طرف بڑھ رہے تھے، جاڑوں کا موسم تھا، رات کا وقت، ہر طرف تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ رات کی سخت سخت خنکی میں راستہ گم کر بیٹھے۔ دور سے ایک روشنی دکھائی دی، اپنے گھر والوں سے کہا تم یہیں ٹھہرو، مجھے آگ نظر آئی ہے، میں وہاں جاتا ہوں، اگر کچھ لوگ وہاں ہوئے تو ان سے راستہ معلوم کرتا ہوں ورنہ آگ ہی کا کوئی انگارہ لاتا ہوں تاکہ تم لوگ اس سردی میں تاپ سکو۔
Top