Ruh-ul-Quran - Al-Qasas : 24
فَسَقٰى لَهُمَا ثُمَّ تَوَلّٰۤى اِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ اِنِّیْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ
فَسَقٰى : تو اس نے پانی پلایا لَهُمَا : ان کے لیے ثُمَّ تَوَلّيٰٓ : پھر وہ پھر آیا اِلَى الظِّلِّ : سایہ کی طرف فَقَالَ : پھر عرض کیا رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ : بیشک میں لِمَآ : اس کا جو اَنْزَلْتَ : تو اتارے اِلَيَّ : میری طرف مِنْ خَيْرٍ : کوئی بھلائی (نعمت) فَقِيْرٌ : محتاج
پس (یہ سن کر) موسیٰ نے ان دونوں کی خاطر جانوروں کو پانی پلا یا، پھر سائے کی طرف ہٹ گئے اور دعا کی اے میرے رب ! جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کردے، میں اس کا محتاج ہوں
فَسَقٰی لَھُمَا ثُمَّ تَوَلّٰیٓ اِلَی الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍفَـقِیْرٌ۔ (القصص : 24) (پس (یہ سن کر) موسیٰ نے ان دونوں کی خاطر جانوروں کو پانی پلا یا، پھر سائے کی طرف ہٹ گئے اور دعا کی اے میرے رب ! جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کردے، میں اس کا محتاج ہوں۔ ) ایک واقعہ کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر اثر ان شریف زادیوں کی یہ بات سن کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے جذبہ حمایتِ ضعیف میں تحریک پیدا ہوئی۔ وہ اٹھے اور تنہا کنویں سے پوری قوت سے ڈول کھینچ کر جانوروں کو پانی پلایا اور پھر پہلے جس درخت کے سائے میں بیٹھے تھے، وہیں جا کر بیٹھ گئے۔ نہ ان شریف زادیوں کی طرف دیکھنے کی زحمت کی اور نہ ان سے مزید کوئی بات کرنا مناسب سمجھا۔ کیونکہ ان کی طرف متوجہ ہونا کمزوروں کی مدد کا تقاضا تھا۔ اس سے زائد توجہ کرنا، پھر بات کرنے کی کوشش کرنا یہ ایسی دلچسپی کا اظہار تھا جو شرفاء کے لیے کبھی مناسب نہیں ہوتا۔ اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے سامنے دعا کے لیے ہاتھ پھیلا دیئے۔ دعا کے الفاظ اس قدر مختصر اور اس قدر حُسنِ ایجاز سے مرصع ہیں کہ قلم اس کی تعریف کرنے سے عاجز ہے۔ آپ ( علیہ السلام) چونکہ نہایت بےسروسامان ہر طرح کی ضرورت سے تہی دامن اور گزشتہ 8 دنوں سے مسلسل فاقوں کی زد میں تھے۔ بےساختہ التجا کی کہ یا اللہ جو بھی خیر کی کوئی بات اس وقت تو نازل فرمائے، میں سب سے زیادہ اس کا محتاج ہوں۔ خیر کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے کہ جس طرح یہ لفظ بڑی سے بڑی سچائی اور حقیقت پر بولا جاتا ہے اسی طرح مال و دولت اور انسانی ضرورتوں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ آپ ( علیہ السلام) چونکہ برسرراہ ایک ایسے مسافر کی حیثیت سے ایک درخت کے سائے میں بیٹھے تھے جس کے پاس نہ کھانے کو کچھ تھا اور نہ کوئی سر چھپانے کی جگہ تھی۔ اور آئندہ کیا صورت پیش آنے والی ہے اس کا کوئی سروسامان نہ تھا۔ اس لیے آپ نے صرف ایک لفظ میں ان تمام ضرورتوں کو سمیٹ لیا۔ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ جو دعا ٹھیک وقت میں ٹھیک طریقے سے اخلاص کی قوت کے ساتھ مانگی جائے وہ کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ ادھر دعا کے الفاظ منہ سے نکلے، ادھر درِ اجابت کھل گیا۔ اور مظلوموں کے لیے تو اللہ تعالیٰ کا قانون اور بھی نازک واقع ہوا ہے۔ سچ کہا کسی نے : بترس از آہ مظلوماں کہ ہنگامِ دعا کردن اجابت از درحق بہر استقبال می آید ان صاحبزادیوں کے والد کون تھے ؟ ان خواتین کے والد کے متعلق ہمارے ہاں کی روایات میں یہ بات مشہور ہوگئی ہے کہ وہ حضرت شعیب (علیہ السلام) تھے۔ لیکن قرآن مجید میں اشارۃً و کنایۃً بھی کوئی بات ایسی نہیں کہی گئی ہے جس سے یہ سمجھا جاسکے کہ وہ حضرت شعیب (علیہ السلام) ہی تھے۔ حالانکہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی شخصیت قرآن میں ایک معروف شخصیت ہے۔ اگر ان خواتین کے والد وہی ہوتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ یہاں اس کی تصریح نہ کردی جاتی۔ بلاشبہ بعض احادیث میں ان کے نام کی تصریح ملتی ہے لیکن علامہ ابن جریر اور ابن کثیر دونوں اس پر متفق ہیں کہ ان میں سے کسی کی سند بھی صحیح نہیں ہے۔ اسی لیے ابن عباس، حسن بصری، ابوعبیدہ اور سعید بن جبیر جیسے اکابر مفسرین نے بنی اسرائیل کی روایات پر اعتماد کرکے ان بزرگ کے وہی نام بتائے ہیں جو تلمود وغیرہ میں آئے ہیں۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر نبی کریم ﷺ سے اسم شعیب کی تصریح منقول ہوتی تو یہ حضرات کوئی دوسرا نام نہ لے سکتے تھے۔ بائیبل میں ایک جگہ ان بزرگ کا نام رعوایل اور دوسری جگہ یترو بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ مدین کے کاہن تھے۔ (خروج باب 2: 12۔ 18۔ باب 3: 1۔ باب 18: 5) ۔ تلمود لٹریچر میں رعوایل، یتھرو اور حوباب تین مختلف نام بتائے گئے ہیں۔ موجودہ زمانے کے علمائے یہود کا خیال ہے کہ یتھرو ہز اکسی لنسی کا ہم معنی لقب تھا اور اصل نام رعوایل یا حوباب تھا۔ اسی طرح لفظ کاہن (Kohen Midian) کی تشریح میں بھی علماء یہود کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض اس کو پروہت (Priest) کا ہم معنی بتاتے ہیں اور بعض رئیس یا امیر (Price) کا۔ تلمود میں ان کے جو حالات بیان کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش سے پہلے فرعون کے ہاں ان کی آمدورفت تھی اور وہ ان کے علم اور اصابت رائے پر اعتماد رکھتا تھا۔ مگر جب بنی اسرائیل کا استیصال کرنے کے لیے مصر کی شاہی کونسل میں مشورے ہونے لگے اور ان کے لڑکوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کردینے کا فیصلہ کیا گیا تو انھوں نے فرعون کو اس غلط کام سے روکنے کی کوشش کی، اسے اس ظلم کے برے نتائج سے ڈرایا اور رائے دی کہ اگر ان لوگوں کا وجود آپ کے لیے ناقابلِ برداشت ہے تو انھیں ان کے باپ دادا کے ملک کنعان کی طرف نکال دیجیے۔ اس پر فرعون ان سے ناراض ہوگیا اور اس نے انھیں ذلت کے ساتھ اپنے دربار سے نکلوا دیا۔ اس وقت سے وہ اپنے ملک مدین ہی میں اقامت گزیں ہوگئے تھے۔ ان کے مذہب کے متعلق قیاس یہی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرح وہ بھی دین ابراہیمی کے پیرو تھے۔ کیونکہ جس طرح حضرت موسیٰ اسحاق بن ابراہیم (علیہما السلام) کی اولاد تھے اسی طرح وہ مدیان بن ابراہیم کی اولاد میں سے تھے۔ یہی تعلق غالباً اس کا موجب ہوا ہوگا کہ انھوں نے فرعون کو بنی اسرائیل پر ظلم کرنے سے روکا اور اس کی ناراضی مول لی۔ مفسر نیسابوری نے حضرت حسن بصری کے حوالہ سے لکھا ہے کہ انہ کان رجلا مسلما قَبِل الدین مِن شعیب (وہ ایک مسلمان آدمی تھے۔ حضرت شعیب ( علیہ السلام) کا دین انھوں نے قبول کرلیا تھا) ۔ تلمود میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ مدیانیوں کی بت پرستی کو علانیہ حماقت قرار دیتے تھے، اس وجہ سے اہل مدین ان کے مخالف ہوگئے تھے۔ (تفہیم القرآن)
Top