Ruh-ul-Quran - Al-Qasas : 3
نَتْلُوْا عَلَیْكَ مِنْ نَّبَاِ مُوْسٰى وَ فِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ
نَتْلُوْا : ہم پڑھتے ہیں عَلَيْكَ : تم پر مِنْ نَّبَاِ : کچھ خبر (احوال) مُوْسٰى : موسیٰ وَفِرْعَوْنَ : اور فرعون بِالْحَقِّ : ٹھیک ٹھیک لِقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ : ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں
ہم آپ کو حضرت موسیٰ اور فرعون کا کچھ حال ٹھیک ٹھیک سناتے ہیں ان لوگوں کی ہدایت کے لیے جو ایمان لانا چاہیں
نَتْلُوْا عَلَیْکَ مِنْ نَّـبَاِ مُوْسٰی وَفِرْعُوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ یُّـؤْمِنُوْنَ ۔ (القصص : 3) (ہم آپ کو حضرت موسیٰ اور فرعون کا کچھ حال ٹھیک ٹھیک سناتے ہیں۔ ان لوگوں کی ہدایت کے لیے جو ایمان لانا چاہیں۔ ) سرگزشت کے سنانے کا اصل مقصد اس آیت کریمہ میں خطاب اگرچہ نبی کریم ﷺ کو ہے لیکن آیت کے آخری الفاظ خود بول رہے ہیں کہ اس واقعہ کو سنانے کا مقصد داستان سرائی نہیں بلکہ وہ لوگ جو ایمان لانا چاہتے ہیں لیکن حق و باطل کی کشمکش اور اس میں پیش آنے والا زیروبم ان کے ارادوں کو متزلزل کردیتا ہے۔ وہ جب مشرکین کے مظالم کو دیکھتے ہیں تو ان کے آگے بڑھتے ہوئے قدم رک جاتے ہیں اور مسلمانوں کی مظلومیت ان کے حوصلوں میں اضمحلال پیدا کردیتی ہے۔ ان کے سامنے یہ واقعہ سنانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ مکہ کے فراعنہ فرعونِ مصر سے زیادہ طاقتور نہیں اور نہ مکہ کے مسلمان بنی اسرائیل سے زیادہ کمزور ہیں۔ باایں ہمہ حق و باطل کی کشمکش کا نتیجہ حق کی سربلندی اور باطل کی تباہی کی شکل میں ظاہر ہوا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حق شروع میں بظاہر کمزور دکھائی دیتا ہے اور مخالفین کا ظلم ایسا لگتا ہے کہ حق کو نگل جائے گا۔ لیکن رفتہ رفتہ حق سورج کی طرح سربلند ہوتا اور اندھیرے سمٹنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور آخرکار وہ وقت آجاتا ہے جب تاریکی کے مسافروں کو کہیں پناہ نہیں ملتی۔ وہ اسلام کی آغوش میں آجاتے ہیں یا حالات کی نذر ہوجاتے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات تورات میں بھی بیان ہوئے ہیں لیکن ان واقعات میں وہ عبرت و موعظت نظر نہیں آتی جو سرگزشتِ موسیٰ سے مقصود ہے۔ قرآن کریم نے ” بالحق “ کے لفظ سے اسی کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ تورات اور تلمود میں اس سرگزشت کے بیان کرنے میں افراط وتفریط سے کام لیا گیا ہے جبکہ قرآن کریم اس سرگزشت کو اس طرح بیان کرتا ہے جس میں روایت میں دیانت کے تمام پہلوئوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور سرگزشت کی اصل روح کو نمایاں کیا گیا ہے جو واقعہ کا حاصل ہے۔
Top