Ruh-ul-Quran - Al-Qasas : 41
وَ جَعَلْنٰهُمْ اَئِمَّةً یَّدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ١ۚ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ لَا یُنْصَرُوْنَ
وَ : اور جَعَلْنٰهُمْ : ہم نے بنایا انہیں اَئِمَّةً : سردار يَّدْعُوْنَ : وہ بلاتے ہیں اِلَى النَّارِ : جہنم کی طرف وَ : اور يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت لَا يُنْصَرُوْنَ : وہ مدد نہ دئیے جائیں گے
ہم نے ان کو دنیا میں جہنم کی طرف دعوت دینے والے پیشوا بنایا اور قیامت کے دن ان کی کوئی مدد نہیں کی جائے گی
وَجَعَلْـنٰـھُمْ اَئِمَّۃً یَّدْعُوْنَ اِلَی النَّارِ ج وَیَوْمَ الْقِیٰـمَۃِ لاَ یُنْصَرُوْنَ ۔ (القصص : 41) (ہم نے ان کو دنیا میں جہنم کی طرف دعوت دینے والے پیشوا بنایا اور قیامت کے دن ان کی کوئی مدد نہیں کی جائے گی۔ ) فرعون اور اس کے حواری اپنی ذات میں ایک مثال بنا دیئے گئے۔ بڑے سے بڑا گمراہ آدمی بھی بعض دفعہ دوسروں کی گمراہیوں کی تقلید کرتا ہے اور کبھی اپنی روش میں تبدیلی لانے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ لیکن یہ ایسے بدنصیب واقع ہوئے تھے کہ قدرت نے انھیں مہلت دی تھی کہ وہ لوگوں کو بگاڑنے اور راہ حق سے دور کرنے کے لیے جو مساعی بھی انجام دینا چاہیں ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی۔ اس کے نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کی سزا بھی ایسی بےروک ہوگی کہ قیامت کے دن کہیں سے بھی ان کو مدد نہیں پہنچے گی۔ آیت کا دوسرا مفہوم یہ ہوسکتا ہے کہ بڑے سے بڑے مفسد لوگ دنیا میں گزرے ہیں لیکن فرعون اور اس کے دائیں بائیں رہنے والے لوگ اپنی ذات میں اس لحاظ سے ایک نمونہ ہیں کہ انھوں نے سرکشی، گمراہی اور بدچلنی کے ایسے راستے کھولے ہیں کہ جس میں ان کا کوئی ہمسر نہیں۔ آئندہ نسلوں کو گمراہ کرنے میں جو انھوں نے مثالیں چھوڑی ہیں اس کا کہیں جواب نہیں۔ انھوں نے جس برائی کی طرف بھی توجہ کی اس کو پوری طرح سیراب کیا۔ اور جس صداقت کے مقابلے میں بھی ہتھیار اٹھایا ظلم کی انتہا کردی۔ اس لحاظ سے وہ واقعی اس قابل ہیں کہ انھیں گمراہ دنیا کا امام کہا جائے۔ ان کی زندگی فی الواقع جہنم کی آگ کی طرف دعوت دیتے گزری ہے۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ آگ کی طرف دعوت دینے کو استعارۃً استعمال کیا گیا ہے۔ یہ اپنے حقیقی معنی میں نہیں بلکہ مجازی معنی میں ہے۔ لیکن سید انور شاہ صاحب ( رح) کی تحقیق یہ ہے کہ آخرت کی جزاء عین عمل ہے۔ انسان کے اعمال جو وہ دنیا میں کرتا ہے برزخ اور پھر حشر میں اپنی شکلیں بدلیں گے اور جوہری صورتوں میں نیک اعمال گل و گلزار بن کر جنت کی نعمتیں بن جائیں گے اور اعمالِ کفر و ظلم آگ اور سانپ، بچھوئوں اور طرح طرح کے عذابوں کی شکل اختیار کرلیں گے۔ اس لیے جو شخص اس دنیا میں کسی کو کفروظلم کی طرف بلا رہا ہے وہ حقیقتاً اس کو آگ ہی کی طرف بلا رہا ہے۔
Top