Ruh-ul-Quran - Al-Qasas : 4
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ وَ جَعَلَ اَهْلَهَا شِیَعًا یَّسْتَضْعِفُ طَآئِفَةً مِّنْهُمْ یُذَبِّحُ اَبْنَآءَهُمْ وَ یَسْتَحْیٖ نِسَآءَهُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ
اِنَّ : بیشک فِرْعَوْنَ : فرعون عَلَا : سرکشی کر رہا تھا فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں وَجَعَلَ : اور اس نے کردیا اَهْلَهَا : اس کے باشندے شِيَعًا : الگ الگ گروہ يَّسْتَضْعِفُ : کمزور کر رکھا تھا طَآئِفَةً : ایک گروہ مِّنْهُمْ : ان میں سے يُذَ بِّحُ : ذبح کرتا تھا اَبْنَآءَهُمْ : ان کے بیٹوں کو وَيَسْتَحْيٖ : اور زندہ چھوڑ دیتا تھا نِسَآءَهُمْ : ان کی عورتوں کو اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا مِنَ : سے الْمُفْسِدِيْنَ : مفسد (جمع)
بیشک فرعون سرزمینِ مصر میں بہت سرکش ہوگیا تھا اور اس نے اس کے باشندوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کردیا تھا، ان میں سے ایک گروہ کو اس نے دبا رکھا تھا، ان کے لڑکوں کو قتل کرتا اور ان کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا، بیشک وہ فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلاَ فِی الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَھْلَھَا شِیَعًا یَّسْتَضْعِفُ طَـآئِفَۃً مِّنْھُمْ یُذَبِّحُ اَبْـنَـآئَ ھُمْ وَیَسْتَحْیِ نِسَآئَ ھُمْ ط اِنَّـہٗ کَانَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ ۔ (القصص : 4) (بیشک فرعون سرزمینِ مصر میں بہت سرکش ہوگیا تھا اور اس نے اس کے باشندوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کردیا تھا، ان میں سے ایک گروہ کو اس نے دبا رکھا تھا، ان کے لڑکوں کو قتل کرتا اور ان کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا، بیشک وہ فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا۔ ) سرگزشت کے مقصد کے اہم اجزاء اصل سرگزشت شروع کرنے سے پہلے یہ اور اس کے بعد کی دو آیتوں میں اس غایت و مقصد کو سامنے رکھ دیا گیا ہے جو اس سرگزشت سنانے کا اصل مقصود ہے۔ پیش نظر شاید یہ ہے کہ سرگزشت پڑھتے ہوئے یہ مقصد نظروں سے اوجھل نہ ہونے پائے۔ اس مقصد کو چند نکات کی صورت میں ایک ترتیب سے بیان کیا گیا ہے۔ اندازِ بیان چونکہ ایجاز کا حسن لیے ہوئے ہے جس کی نزاکتوں کو کماحقہ ملحوظ رکھنا ہمارے بس میں نہیں، تاہم قرآن کریم کی بیان کردہ ترتیب کے مطابق ہم کسی حد تک اسے بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ فرعون سرزمینِ مصر میں بہت سرکش ہوگیا تھا۔ عَلاَ کا مصدر علو ہے جس کا معنی ہے سرکشی۔ زمین میں سرکشی یہ ہے کہ زمین کے اصل خالق ومالک کی مرضی اور اس کے احکام کو نظرانداز کرکے کوئی اس میں اپنی من مانی کرنے لگ جائے اور خدا کے بندوں کو خدا کی بندگی اور اطاعت میں داخل کرنے کی بجائے ان سے اپنی بندگی اور غلامی کرانے لگے۔ فرعون نے سرزمینِ مصر میں یہی روش اختیار کی تھی۔ وہ اس بات کو بھول گیا تھا کہ یہ زمین اللہ تعالیٰ کی ہے اور مجھے بھی اسی نے پیدا کیا ہے۔ زمین کی طرح میں بھی اس کی مخلوق ہوں، زمین جس کے حکم سے گردش کرتی ہے میں بھی اسی کے حکم سے زندگی گزارنے کا پابند ہوں۔ لیکن اس نے زمین میں اللہ تعالیٰ کی بندگی کی بجائے باغیانہ روش اختیار کی اور اپنی بندگی کے مقام سے اٹھ کر خودمختاری اور خداوندی کا لبادہ پہن لیا۔ اور زمین کے خزانوں کا مالک ہو کر خدائی کا صور پھونکنے لگا اور جبار اور متکبر بن کر ظلم ڈھانے لگا۔ دوسری بات اس آیت کریمہ سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ فرعون کی حکومت انسان دوست اور عادلانہ حکومت نہ تھی بلکہ اس نے ملک کو طبقات میں تقسیم کردیا تھا۔ قانون کی نگاہ میں ملک کے سب باشندے یکساں نہ تھے۔ ملک کا طبقہ اشرافیہ جس سے وہ خود بھی تعلق رکھتا تھا ملک کا مقتدر طبقہ تھا۔ غیرمعمولی مراعات نے اس طبقے کو خودسر بنانے کے ساتھ ساتھ حکومت کا آلہ کار بھی بنادیا تھا۔ وہ حکومت کے ہر فیصلے کو اپنا فیصلہ سمجھتے تھے اور ان کی ظالمانہ روش کو حکومت کی روش پر محمول کیا جاتا تھا۔ یہ بالائی طبقہ چونکہ حکومت کے لیے ناگزیر ہوگیا تھا اس لیے ضروری تھا کہ نچلے طقبوں کو مزید کمزور کردیا جائے تاکہ وہ سر اٹھانے کے قابل نہ رہیں۔ یوں تو تمام نچلے طبقات فرعون اور آل فرعون کے مظالم کا شکار تھے لیکن تاریخ ہمارے سامنے ظلم کا ایک اور گوشہ بھی بےنقاب کرتی ہے جس کی وجہ سے بنی اسرائیل خاص طور پر حکومت اور قبطیوں کے مظالم کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ میری مراد اس سے یہ ہے کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا دور گزر جانے کے بعد مصر میں ایک قوم پرستانہ انقلاب برپا ہوا تھا غالباً حضرت یوسف (علیہ السلام) سے ایک صدی کے بعد یہ واقعہ پیش آیا۔ چونکہ اس انقلاب کے نتیجے میں بنی اسرائیل اقتدار سے محروم ہوئے اور قبطیوں کے ہاتھ میں دوبارہ اقتدار آیا۔ ان کی نئی بننے والی حکومت نے قوم پرستی کو اپنا شعار بنایا اور ان کی قوم کے علاوہ جو قومیں مصر میں آباد تھیں ان کا زور توڑنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس کے لیے وہی طریقہ اختیار کیا گیا جو عام طور پر قوم پرستانہ حکومتیں اختیار کیا کرتی ہیں۔ یعنی مختلف قوموں میں قومیت کی بنیاد پر اختلافات کو تعصبات کی حد تک پہنچا دیا جاتا ہے اور پھر ہر اختلاف کو ان تعصبات میں اضافہ کرنے کے لیے ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ چناچہ فرعون نے بھی ایسا ہی کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ طبقاتی منافرت ملک میں فزوں تر ہوتی چلی گئی۔ طبقہ اشرافیہ نے قوم پرستانہ جذبات سے کام لیتے ہوئے دوسرے گروہوں کو اپنے مظالم کا نشانہ بنایا اور فرعون اور اس کی حکومت نے ہر ممکن طریقے سے ان کو تحفظ دیا۔ تیسری بات اس آیت کریمہ سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ فرعون اور آل فرعون نے یہ محسوس کیا کہ بنی اسرائیل توالد و تناسل کے ذریعہ سے اپنی افرادی قوت میں اضافہ کرتے چلے جارہے ہیں اور بعض دوسرے قبائل جو حکومت کے مظالم کا شکار ہیں وہ بھی درپردہ ان کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ اگر ان کی بڑھتی ہوئی تعداد کو نہ روکا گیا تو اندیشہ ہے کہ یہ اپنی افرادی قوت کے بل بوتے پر کوئی انقلاب برپا نہ کردیں چناچہ بنی اسرائیل کے بارے میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ان کے گھروں میں جاسوسی کا جال پھیلا دیا جائے۔ جب بھی یہ معلوم ہو کہ کسی گھر میں بچہ پیدا ہوا ہے تو دیکھو اگر بیٹی پیدا ہو تو اسے چھوڑ دو اور اگر بیٹا پیدا ہو تو اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا جائے اور پولیس کا کام یہ ہے کہ وہ اسے قتل کردے۔ اس طرح سے ان کی تعداد میں اضافہ رک جائے گا اور ان کی عورتیں ہمارے گھروں میں کام کاج کی ذمہ داریاں بھی ادا کریں گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے ذریعہ سے قبطی نسل میں اضافے کا سامان کیا جاسکے۔ تلمود اس کی مزید تفصیل یہ بتاتی ہے کہ نئی قوم پرست حکومت نے پہلے تو بنی اسرائیل کو ان کی زرخیز زمینوں اور ان کے مکانات اور جائیدادوں سے محروم کیا، پھر انھیں حکومت کے تمام مناصب سے بےدخل کیا۔ اس کے بعد بھی جب قبطی حکمرانوں نے محسوس کیا کہ بنی اسرائیل اور ان کے ہم مذہب مصری کافی طاقتور ہیں تو انھوں نے اسرائیلیوں کو ذلیل و خوار کرنا شروع کردیا اور ان سے سخت محنت کے کام قلیل معاوضوں پر یا بلامعاوضہ لینے لگے۔ اور یہ ظلم بڑھتے بڑھتے بچوں کے قتل عام تک پہنچا۔ مقصود یہ تھا کہ کسی طرح بنی اسرائیل کو دبا کر رکھا جائے اور ان کی تعداد میں اضافے کی بجائے کمی کی جائے۔ مگر یہ بات جو ہمارے یہاں مشہور ہوگئی ہے کہ فرعون سے کسی نجومی نے یہ کہا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہونے والا ہے جس کے ہاتھوں فرعونی اقتدار کا تختہ الٹ جائے گا یا فرعون نے خود کوئی ایسا خواب دیکھا تھا اور اس خطرے کو روکنے کے لیے فرعون نے بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ اس کا ذکر نہ تو تورات میں ہے اور نہ قرآن کریم میں۔ یہ افسانہ تلمود اور دوسری اسرائیلی روایات سے ہمارے یہاں نقل ہوا اور مشہور ہوا۔ آخر میں فرمایا گیا ہے کہ فرعون خدا کی زمین میں فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کی بجائے اپنی حاکمیت کا صور پھونکا اور اپنی رعایا میں طبقات پیدا کیے اور عدل و مساوات کی بجائے ظالمانہ حکومت قائم کی اور خدا کی زمین کو ظلم اور فساد سے بھر دیا۔
Top