Ruh-ul-Quran - Al-Qasas : 58
وَ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْیَةٍۭ بَطِرَتْ مَعِیْشَتَهَا١ۚ فَتِلْكَ مَسٰكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَنْ مِّنْۢ بَعْدِهِمْ اِلَّا قَلِیْلًا١ؕ وَ كُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِیْنَ
وَكَمْ : اور کتنی اَهْلَكْنَا : ہلاک کردیں ہم نے مِنْ قَرْيَةٍ : بستیاں بَطِرَتْ : اتراتی مَعِيْشَتَهَا : اپنی معیشت فَتِلْكَ : سو۔ یہ مَسٰكِنُهُمْ : ان کے مسکن لَمْ تُسْكَنْ : نہ آباد ہوئے مِّنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : قلیل وَكُنَّا : اور ہوئے ہم نَحْنُ : ہم الْوٰرِثِيْنَ : وارث (جمع)
کتنی ہی ایسی بستیاں ہم تباہ کرچکے ہیں جن کے لوگ اپنی خوشحالی پر فخر کرنے لگے تھے، پس یہ ہیں ان کے گھر جن میں سکونت نہیں کی گئی ان کے بعد مگر بہت کم عرصہ، آخرکار ہم ہی ان کے وارث بنے
وَکَمْ اَھْلَـکْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ م بَطِرَتْ مَعِیْشَتَھَا ج فَتِلْکَ مَسٰکِنُھُمْ لَمْ تُسْکَنْ مِّنْ م بَعْدِھِمْ اِلاَّ قَلِیْلاً ط وَکُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِیْنَ ۔ (القصص : 58) (کتنی ہی ایسی بستیاں ہم تباہ کرچکے ہیں جن کے لوگ اپنی خوشحالی پر فخر کرنے لگے تھے، پس یہ ہیں ان کے گھر جن میں سکونت نہیں کی گئی ان کے بعد مگر بہت کم عرصہ، آخرکار ہم ہی ان کے وارث بنے۔ ) قریش کو جن فکری اور اخلاقی گمراہیوں نے ہدایت سے دور رکھا ہے ان میں سے ایک خرابی کا حوالہ دے کر تنبیہ کی جارہی ہے کہ تم جس چیز پر فخر کرتے اور اتراتے ہو، یہی تو وہ چیز ہے جس کی وجہ سے گزشتہ کئی امتیں تباہ ہوچکی ہیں اور ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب بھڑک چکا ہے۔ تم اپنی دولت و ثروت اور امارت و رفاہیت پر فخر کرتے اور اسی کو حاصل زندگی سمجھتے ہو اور اسی میں زیادہ سے زیادہ ترقی کو تم اپنی منزل بنا چکے ہو اور تمہیں اس شخص کی بات نہایت فضول معلوم ہوتی ہے جو تمہارے اس استغراق پر تنقید کرتا ہے تم اسے دیوانہ سمجھتے ہو۔ گویا کہ تمہارے نزدیک مادی زندگی کا حصول اور اس میں بیش از بیش ترقی زندگی کا اصل ہدف ہونا چاہیے۔ چناچہ ان کے اس رویئے پر تنقید کرتے ہوئے پروردگار ارشاد فرما رہا ہے کہ تم سے پہلے تم سے زیادہ ترقی یافتہ قومیں گزری ہیں۔ ان کے مساکن یعنی ان کی آبادیاں اور ان کے مکانات آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ اور تم ان قوموں کے کھنڈرات سے گزرتے ہوئے پہاڑوں میں کھدے ہوئے ان کے مکانات بارہا دیکھ چکے ہو۔ آج ان مکانات کی بےآبادی اور اس علاقے کی ویرانی اور وہاں جابجا پھیلی ہوئی نحوست خود اپنے منہ سے بول رہی ہے کہ یہاں بسنے والی قوموں نے جن چیزوں کو اپنے لیے عمردوام کا سامان سمجھا تھا وہی چیزیں ان کے لیے ہلاکت کا باعث بنیں۔ آج تاریخ انھیں صرف عبرت کے حوالے سے یاد کرتی ہے۔ کوئی ان کا نام لیوا زندہ نہیں۔ وہ جس چیز کو ترقی کا معیار سمجھتے تھے وہی چیز ان کے لیے ہلاکت کا سبب ثابت ہوئی۔ اہل حق نے دنیوی نعمتوں کو کبھی اپنے لیے حرام نہیں سمجھا اور نہ اللہ تعالیٰ کے نبیوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری کی۔ لیکن اگر یہی نعمتیں اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی خوشحالی شکر کا ذریعہ بننے کی بجائے حق و باطل سے بےنیاز کردے اور دنیا طلبی ہی مقصد زندگی بن کر رہ جائے اور جس مقصد کی دعوت اس تصور میں کمی کرتی ہو تو اسے قبول کرنے سے انکار کردیا جائے۔ تو یہ وہ چیز ہے جس نے پہلی قوموں کو تباہ کیا اور قریش کو بھی اس تباہی کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے۔ آخر میں ارشاد فرمایا کہ جن لوگوں کی سرکشی نے زمین کو فساد سے بھر دیا تھا اور وہ اپنے آپ کو اس زمین کا مالک سمجھتے تھے وہ سب فنا ہوگئے۔ آخر ان کی ایک ایک چیز ان کی وراثت بن کر اللہ تعالیٰ کی ہی طرف لوٹ آئی۔ کیونکہ وہی زمین و آسمان اور اس میں پائی جانے والی ہر چیز کا خالق ومالک ہے۔ اور اس لحاظ سے ہر چیز کا وارث بھی ہے۔
Top