Ruh-ul-Quran - Al-Qasas : 65
وَ یَوْمَ یُنَادِیْهِمْ فَیَقُوْلُ مَا ذَاۤ اَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِیْنَ
وَيَوْمَ : اور جس دن يُنَادِيْهِمْ : وہ پکارے گا انہیں فَيَقُوْلُ : تو فرمائے گا مَاذَآ : کیا اَجَبْتُمُ : تم نے جواب دیا الْمُرْسَلِيْنَ : پیغمبر (جمع)
اور اس دن کو یاد کرو جس دن اللہ تعالیٰ انھیں پکارے گا اور پوچھے گا کہ تم نے ہمارے رسولوں کو کیا جواب دیا
وَیَوْمَ یُنَادِیْھِمْ فَیَـقُوْلُ مَاذَآ اَجَبْتُمُ الْمُرسَلِیْنَ ۔ فَعَمِیَتْ عَلَیْھِمُ الْاَنْـبَـآئُ یَوْمَئِذٍ فَھُمْ لاَ یَتَسَآئَ لُوْنَ ۔ (القصص : 65، 66) (اور اس دن کو یاد کرو جس دن اللہ تعالیٰ انھیں پکارے گا اور پوچھے گا کہ تم نے ہمارے رسولوں کو کیا جواب دیا۔ تو اس دن ان کی سٹی بھول جائے گی، وہ (مارے دہشت کے) آپس میں ایک دوسرے سے پوچھ گچھ بھی نہ کرسکیں گے۔ ) رسولوں کے حوالے سے لوگوں سے سوال اور ان کی بدحواسی یہ بھی احوالِ قیامت ہی کا تذکرہ ہے۔ اس سے پہلے کی آیات میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں سے اپنی توحید کے حوالے سے سوالات کرے گا اور جن لوگوں نے شرک کو زندگی کا طرزعمل بنائے رکھا، مختلف پہلوئوں سے ان کے عقیدے کی خرابی، ان کے سہاروں کی ناتوانی اور ان کی بےبسی کو واضح کیا گیا ہے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جس طرح توحید اور شرک کے حوالے سے لوگوں سے سوالات ہوں گے، اسی طرح رسولوں سے متعلق ان کے رویوں کے بارے میں بھی سوالات ہوں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے دین کی پیروی کا تمام تر دارومدار اس کے بھیجے ہوئے رسولوں کی دعوت کے قبول یا رد کرنے پر ہے۔ جس قوم نے پیغمبر کی تکذیب کردی اور اس کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیا اس نے درحقیقت اس مصدرومنبع سے اپنا رشتہ توڑ لیا جہاں سے انسانوں کو ہدایت ملتی ہے۔ اور روشنی کے اس سرچشمے سے آنکھیں بند کرلیں جہاں سے ہدایت کی روشنی نصیب ہوسکتی ہے۔ اس لیے ایک ایک امت سے یہ پوچھا جائے گا کہ تمہاری طرف ہم نے ہدایت کے لیے رسول بھیجے تاکہ کل کو تم بیخبر ی کا بہانہ نہ کرسکو۔ اور ان رسولوں نے زندگی کا ہر دکھ اٹھا کر تمہارے ساتھ خیرخواہی کا حق ادا کردیا۔ لیکن تم نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ کیا ان کی دعوت کو قبول کیا یا رد کیا ؟ اس سوال کے ساتھ ہی دنیا ان کے سامنے اندھیر ہوجائے گی۔ اور ان کے جرم کی سنگینی پوری طرح ان پر کھل جائے گی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ان پر ایسی بدحواسی طاری ہوگی کہ جواب دینے کی خواہش کے باوجود وہ کوئی بات کہنے پر قادر نہ ہوسکیں گے۔ ان کی اس حیرت زدگی اور بدحواسی کی کیفیت کو قرآن کریم نے فَعَمِیَتْ عَلَیْھِمُ الْاَنْـبَـآئُ کے فقرہ سے تعبیر کیا ہے۔ اس کا لفظی معنی تو یہ ہے ” کہ فَصَارَتِ الْاَنْبَائُ عَلَیْھِمْ کَالْعُمْیَانِ ” یعنی ان کی دلیلیں اندھی ہو کر رہ جائیں گی اور جہاں وہ کھڑے ہوں گے وہاں تک نہ پہنچ سکیں گے۔ اسی کا ترجمہ ہم نے سٹی بھول جانے کے محاورے سے کیا ہے۔ اس سراسیمگی کا عالم یہ ہوگا کہ وہ پروردگار کے سوال کے جواب میں ایک دوسرے سے بھی کچھ پوچھ گچھ کرنے کی طاقت نہیں پاسکیں گے۔ نتیجتاً اپنے اس انجام کو پہنچ جائیں گے۔
Top