Ruh-ul-Quran - Al-Qasas : 68
وَ رَبُّكَ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ وَ یَخْتَارُ١ؕ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ١ؕ سُبْحٰنَ اللّٰهِ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
وَرَبُّكَ : اور تمہارا رب يَخْلُقُ : پیدا کرتا ہے مَا يَشَآءُ : جو وہ چاہتا ہے وَيَخْتَارُ : اور وہ پسند کرتا ہے مَا كَانَ : نہیں ہے لَهُمُ : ان کے لیے الْخِيَرَةُ : اختیار سُبْحٰنَ اللّٰهِ : اللہ پاک ہے وَتَعٰلٰى : اور برتر عَمَّا يُشْرِكُوْنَ : اس سے جو وہ شریک کرتے ہیں
اور آپ کا رب ہی پیدا فرماتا ہے جو چاہتا ہے اور پسند کرتا ہے (جو چاہتا ہے) ، انھیں کچھ اختیار نہیں، اللہ پاک و برتر ہے ان چیزوں سے جن کو یہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں
وَرَبُّکَ یَخْلُقُ مَایَشَآئُ وَیَخْتَارُ ط مَا کَانَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ ط سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَتَعٰـلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ۔ (القصص : 68) (اور آپ کا رب ہی پیدا فرماتا ہے جو چاہتا ہے اور پسند کرتا ہے (جو چاہتا ہے) ، انھیں کچھ اختیار نہیں، اللہ پاک و برتر ہے ان چیزوں سے جن کو یہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔ ) شرک کے خلاف صفت خلق و اختیار سے استدلال اس آیت کریمہ میں ایک بہت بڑی حقیقت سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ کائنات میں جتنی مخلوقات ہیں ان سب کا خالق ایک ہے۔ چاہے ان مخلوقات کا تعلق انسانوں سے ہو یا فرشتوں سے یا جنوں سے۔ چاہے ان کا تعلق زمینوں سے یا آسمانوں سے اور چاہے ان کا تعلق مکانوں میں سے کسی مکان سے ہو۔ ان کا خالق اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور نہیں۔ یہ بات بالکل سامنے کی ہے کہ جس طرح ہر مخلوق کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اسی طرح ہر مخلوق کو پسند کرنا، اس کو خاص مقام و مرتبہ دینا، مخصوص صلاحیتیں عطا کرنا اور کسی خاص منصب پر فائز کردینا یہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کو زیب دیتا ہے۔ جس طرح اس کی تخلیق میں کوئی اس کا شریک نہیں، اسی طرح اس کے اختیار اور مناصب کی تفویض میں بھی کوئی اس کا ساجھی نہیں۔ شرک کا کاروبار کرنے والوں نے دونوں طرح کے شرک کیے ہیں۔ نہ جانے کس کس کو اللہ تعالیٰ کی صفت تخلیق میں شریک ٹھہرایا۔ اولاد اللہ تعالیٰ دیتا ہے، مشرکین نے اس کا انتساب مختلف قوتوں کی طرف کیا، زندگی اور موت اسی کے قبضے میں ہے لیکن مشرکین نے نہ جانے کس کس کو اس میں دخیل بنایا۔ اسی طرح مخلوقات کے اوصاف، ان کی صلاحیتیں اور طاقتیں بھی اللہ تعالیٰ ہی کی عطا اور دین ہیں۔ اور وہ جس کو چاہتا ہے ان میں سے جو مناسب سمجھتا ہے عطا کرتا ہے۔ لیکن انسانوں نے مختلف مخلوقات کی طرف اپنی مرضی سے ان اوصاف کا انتساب کر رکھا ہے۔ یہاں اس بنیادی خرابی کا ازالہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ وہ جسے چاہے پیدا کرے، اور جیسا چاہے اسے بنائے، جس طرح کے چاہے اوصاف، صلاحیتیں اور طاقتیں بخشے، اور جو کام جس سے لینا چاہے، لے لے۔ جو مقام و مرتبہ کسی کو عطا کرنا چاہے، عطا کردے۔ ان باتوں میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ نہ جانے مشرکین نے یہ اختیارات کہاں سے حاصل کرلیے ہیں کہ مخلوق اس کی ہے اور اختیارات یہ تقسیم کرتے ہیں۔ بندے اس کے ہیں اور صلاحیتیں اور طاقتیں مشرکین ان کی طرف منسوب کررہے ہیں۔ جسے چاہتے ہیں مشکل کشا بنا دیتے ہیں، جسے چاہتے ہیں بارش کا مختار بنا دیتے ہیں، جسے چاہتے غیرمعمولی اختیارات سونپ دیتے ہیں جبکہ یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہیں اور جو شخص یا جو گروہ بھی ان اختیارات اور اعزازات کو کسی اور کی طرف منسوب کرتا ہے وہ دراصل شرک کا ارتکاب کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے ہر شرک سے پاک ہے۔ اس نے فرشتوں کو نور سے پیدا کیا اور معصوم ٹھہرایا، لیکن خدائی میں شریک نہیں کیا۔ اس نے اپنے آخری رسول کو تمام مخلوقات کا سردار بنایا اور سیدالاولین والآخرین ٹھہرایا، لیکن انھیں خدائی میں شریک نہیں کیا۔ وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کے سامنے سرِ نیاز جھکاتا اور اسی کو مدد کے لیے پکارتا ہے۔ قسمتیں بنانے اور بگاڑنے والا اس کے سوا کوئی نہیں۔ اور کوئی ایسا نہیں، جسے خدائی صفات و اختیارات کا حامل قرار دیا جائے۔
Top