Ruh-ul-Quran - Al-Qasas : 73
وَ مِنْ رَّحْمَتِهٖ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ لِتَسْكُنُوْا فِیْهِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
وَمِنْ رَّحْمَتِهٖ : اور اپنی رحمت سے جَعَلَ لَكُمُ : اس نے تمہارے لیے بنایا الَّيْلَ : رات وَالنَّهَارَ : اور دن لِتَسْكُنُوْا : تاکہ تم آرام کرو فِيْهِ : اس میں وَلِتَبْتَغُوْا : اور تاکہ تم تلاش کرو مِنْ فَضْلِهٖ : اس کا فضل (روزی) وَلَعَلَّكُمْ : اور تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : تم شکر کرو
اور اپنی رحمت سے اس نے تمہارے لیے رات اور دن کو بنایا تاکہ تم (رات میں) سکون حاصل کرو، اور تاکہ تم (دن میں) اس کے فضل کے طالب بنو، اور تاکہ تم شکر ادا کرو
وَیَوْمَ یُنَادِیْہِمْ فَیَقُوْلُ اَیْنَ شُرَکَآئِ یَ الَّذِیْنَ کُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ ۔ وَنَزَعْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ شَھِیْدًا فَقُلْنَا ھَاتُوْا بُرْھَانَـکُمْ فَعَلِمُوْٓا اَنَّ الْحَقَّ لِلّٰہِ وَضَلَّ عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ۔ (القصص : 74، 75) (اس دن کا خیال کرو جس دن وہ انھیں پکارے گا پھر پوچھے گا کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کا تم گمان رکھتے تھے۔ اور ہم ہر امت میں سے ایک گواہ نکالیں گے اور لوگوں سے کہیں گے لائو اب اپنی دلیل، اس وقت تم پر واضح ہوجائے گا کہ حق اللہ کی طرف ہے اور گم ہوجائیں گے ان کے وہ سارے جھوٹ جو انھوں نے گھڑ رکھے تھے۔ ) ایک اور پہلو سے سوال پہلی آیت بعینہ سلسلہ بحث کے آغاز میں گزر چکی ہے۔ اس میں سوال مشرکین کے ان شریکوں کے بارے میں تھا جو انھوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ بنا رکھے تھے۔ پھر سلسلہ بحث کے درمیان میں دوبارہ یہ آیت گزری ہے ہے لیکن اس میں سوال اس حوالے سے تھا کہ تمام امتوں سے پوچھا جائے گا بتائو تم نے رسولوں کی دعوت کا جواب کیا دیا تھا ؟ اب تیسری دفعہ یہ آیت ایک اور پہلو سے لائی جارہی ہے۔ ان میں سوال اگرچہ وہی ہے جو پہلی آیت میں گزرا ہے کیونکہ مداربحث توحید ہے اور شرک وہ چیز ہے جو توحید کی حقیقی ضد ہے۔ اس لیے اس سوال کو باردگر دہرایا گیا ہے۔ البتہ اب اس میں اضافہ یہ کیا گیا ہے کہ مشرکین کے جواب کا انتظار کیے بغیر ہر امت کی طرف مبعوث ہونے والے پیغمبر یا وہ برگزیدہ لوگ جو پیغمبروں کی دعوت لے کر امتوں کے پاس گئے انھیں ہر امت پر گواہی کے لیے طلب کرلیا جائے گا۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے یہ بات گزر چکی ہے کہ جب لوگوں سے یہ سوال کیا جائے گا کہ تم نے پیغمبروں کی دعوت کا کیا جواب دیا تو قرآن کریم نے ان کی بےبسی کا ذکر فرمایا تھا۔ کیونکہ وہ قیامت کا منظر دیکھ کر اچھی طرح اندازہ کرچکے تھے کہ ہم نے انبیائے کرام اور ان کی دعوت کے ساتھ جو کچھ کیا، آج اس کے نتیجے میں بہت ہولناک صورتحال سے دوچار ہونا ہے۔ اور اب جبکہ پیغمبروں کو گواہی کے لیے بلا لیا جائے گا تو کچھ نہ پوچھئے کہ ان کی گواہی کے بعد مشرکین پر کیا گزرے گی۔ وہ علیٰ روئوس الاشہاد گواہی دیں گے کہ ہم نے ان کو توحید کا پیغام پہنچایا۔ اللہ تعالیٰ کے دین کی ایک ایک بات کو واضح کیا، اس کے احکام انھیں پڑھ کر سنائے، اس کی پسند و ناپسند کو کھول کر بیان کیا، لیکن یہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئے اور انھوں نے ہماری بات ماننے سے انکار کردیا۔ پیغمبروں کی شہادت کے بعد ان کے پاس کوئی دلیل اور کوئی سندباقی نہیں رہے گی کیونکہ تمام مشرک قوموں نے ہمیشہ اسی دلیل کے سہارے شرک کے کاروبار کو پھیلایا ہے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں اور جن قوتوں کو ہم نے اللہ تعالیٰ کا شریک بنا رکھا ہے یہ سب انبیائے کرام کی تعلیم کا نتیجہ ہے۔ اور جب انبیائے کرام کی گواہی سے یہ بات ثابت ہوجائے گی کہ سب کچھ ان کا خود تراشیدہ ہے تو سب پر یہ بات کھل جائے گی کہ حق بجانب اللہ ہے اور ان کے تمام خود تراشیدہ معبود بالکل بےحقیقت ہیں۔ رسولوں کی شہادت ان پر آخری حجت تمام کردے گی جس کے بعد کسی کے لیے لب کشائی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔ اور جو کچھ وہ اب تک شرک کے حق میں دلائل دیتے رہے ہیں سب پادرہَوا ہوجائیں گے۔
Top