Ruh-ul-Quran - Al-Qasas : 85
اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ١ؕ قُلْ رَّبِّیْۤ اَعْلَمُ مَنْ جَآءَ بِالْهُدٰى وَ مَنْ هُوَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْ : وہ (اللہ) جس نے فَرَضَ : لازم کیا عَلَيْكَ : تم پر الْقُرْاٰنَ : قرآن لَرَآدُّكَ : ضرور پھیر لائے گا تمہیں اِلٰى مَعَادٍ : لوٹنے کی جگہ قُلْ : فرما دیں رَّبِّيْٓ : میرا رب اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے مَنْ : کون جَآءَ : آیا بِالْهُدٰى : ہدایت کے ساتھ وَمَنْ هُوَ : اور وہ کون فِيْ : میں ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ : کھلی گمراہی
بیشک جس نے آپ پر قرآن فرض کیا ہے وہ آپ کو ایک بہترین انجام تک پہنچانے والا ہے، اے پیغمبر کہہ دیجیے کہ میرا رب خوب جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت لے کر کون آیا ہے اور کون ہے جو کھلی ہوئی گمراہی میں ہے
اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ ط قُلْ رَّبِّیْٓ اَعْلَمُ مَنْ جَآئَ بِالْھُدٰی وَمَنْ ھُوَفِیْ ضَلٰـلٍ مُّبِیْنٍ ۔ (القصص : 85) (بیشک جس نے آپ پر قرآن فرض کیا ہے وہ آپ کو ایک بہترین انجام تک پہنچانے والا ہے، اے پیغمبر کہہ دیجیے کہ میرا رب خوب جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت لے کر کون آیا ہے اور کون ہے جو کھلی ہوئی گمراہی میں ہے۔ ) آنحضرت ﷺ کو تسلی اور بشارت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی سرگزشت کے سلسلے میں جس بات کو نمایاں فرمایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اچانک نبوت و رسالت جیسی عظیم ذمہ داری سے گراں بار کیے گئے۔ وہ حالت سفر میں تھے، بکریوں کے ایک ریوڑ کے سوا ان کے پاس کچھ نہ تھا۔ ہاتھ میں ایک عصا تھا جو مختلف کاموں میں معاون اور ہر وقت کا ساتھی تھا۔ دنیا کے وسائل کے حوالے سے آپ ( علیہ السلام) بالکل تہی دامن تھے۔ لیکن آپ ( علیہ السلام) کو اس شخص کی ہدایت کے لیے بھیجا گیا جو ایک بہت بڑی حکومت کا مالک، بیشمار فوجوں اور اسلحہ جنگ سے مسلح اور ایک زرخیز ملک کا مطلق العنان حکمران تھا، جس کی خلاف طبع بات کا نتیجہ موت سے کم نہ تھا۔ لیکن آپ ( علیہ السلام) نے اس کے سامنے کلمہ حق کہا۔ سالوں تک حق و باطل کی کشمکش جاری رہی، لیکن نتیجہ کیا ہوا کہ حق بےیارومددگار ہونے کے باوجود غالب رہا اور باطل اپنی تمام قہرمانی قوتوں سمیت بحرقلزم کی موجوں کی نذر ہوگیا۔ اسی طرح قارون جیسا خزانوں کا مالک دولت مند آپ ( علیہ السلام) کا انتہائی قرابت دار اپنی تمام تر دولت و وجاہت کے باوجود سالوں تک آپ ( علیہ السلام) کی مخالفت میں سرگرداں رہا۔ بالآخر زمین کا رزق ہو کر رہ گیا۔ آج پھر محمد رسول اللہ ﷺ اور قریش کے درمیان معرکہ حق و باطل برپا ہے۔ ایک طرف دنیا بھر کے وسائل ہیں اور دوسری طرف سچائی اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت پر بھروسہ ہے۔ اس کے سوا ان کے پاس بےکسی اور بےبسی کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے مخالفین پر غلبہ دیا، بالکل اسی طرح نبی کریم ﷺ اور مسلمانوں کو قریش اور دیگر اہل باطل پر غلبہ عطا فرمائے گا۔ اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے نبی کریم ﷺ کو پیش نظر آیت کریمہ میں تسلی بھی دی گئی ہے اور غلبہ حق کی پیشگوئی بھی ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ اس کے بعد کی آیات میں قریش اور دیگر مخالف قوتوں کو تنبیہ بھی فرمائی گئی ہے۔ مَعَادٍ کا مفہوم مَعَادٍ کا معنی لوٹنے کی جگہ مرجع اور غائت ہے۔ البتہ اس کی مراد کے تعین میں اہل تفسیر میں اختلاف ہوا ہے۔ بعض مفسرین نے اس سے جنت مراد لی ہے۔ لیکن سیاق کلام سے یہ بات صحیح معلوم نہیں ہوتی۔ کیونکہ جنت تو ہر اس شخص کا صلہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ایمان اور عمل صالح کی توفیق دی ہے۔ اور پھر اس صورت میں آنحضرت ﷺ کی تمام مساعی کے نتیجے کو آخرت تک محدود کردینا جو کسی طرح صحیح نہیں۔ اور مزید یہ کہ اس شکل میں آنحضرت ﷺ کے لیے تسلی کا مضمون بھی مکمل نہیں ہوتا۔ بعض دیگر اہل تفسیر نے اس سے مراد بہترین انجام لیا ہے اور چونکہ اس لفظ کو نکرہ لایا گیا ہے اس لیے انھوں نے اس کی تنکیر کو تفخیمِ شان پر دلیل ٹھہرایا ہے۔ اس وجہ سے وہ اسے مُعْتَادٌحَسَنٌ کے معنی میں لیتے ہیں۔ اس میں یقینا آنحضرت ﷺ کے لیے تسلی ہے کہ قریش تو یہ سمجھتے ہیں کہ آپ ﷺ کا دین قبول کرلینا درحقیقت تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ کیونکہ قریش کی تمام تر قیادت و سیادت ان کے دین شرک سے وابستہ ہے اور اسی نے انھیں پورے عرب کا امام اور بیت اللہ کا متولی بنا رکھا ہے۔ اگر اس کی جگہ توحید کا تصور قبول کرلیا جائے تو تمام جزیرہ عرب کے قبائل ان کے خلاف یورش کریں گے۔ اس طرح سے ان کی ایسی ہوا خیزی ہوگی کہ ان کے لیے مکہ میں رہنا ناممکن ہوجائے گا اور جان بچانا بھی ایک مسئلہ بن جائے گا۔ اس لیے قریش یہ کہتے تھے کہ محمد ﷺ نے اپنے آپ کو تو تباہی کے حوالے کردیا ہے ہم ان کے پیچھے لگ کر اپنے آپ کو تباہ نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو یقین دلا رہا ہے کہ یہ شپرہ چشم لوگ کیا جانیں کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہے۔ ایک بہترین انجام آپ ﷺ کے انتظار میں ہے۔ چند ہی سالوں میں پورا جزیرہ عرب آپ ﷺ کے زیراقتدار ہوگا۔ کوئی مزاحمت کرنے والی طاقت میدان میں باقی نہیں رہے گی۔ سارے عرب میں صرف آپ ﷺ کے دین کا ڈنکا بجے گا۔ چناچہ اس دور کے انسانوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ چند ہی سالوں میں ایک عظیم انقلاب برپا ہوا جس میں نبی کریم ﷺ اور آپ ﷺ کے لائے ہوئے دین کو ایسی قیادت و وجاہت میسر آئی کہ تاریخ نے وہ حیرت انگیز منظر دیکھا جس کی پہلے کوئی مثال موجود نہ تھی کہ وہ قوم جس نے کبھی کسی منظم حکومت کے ماتحت رہنا سیکھا ہی نہ تھا آج اس پوری قوم پر اللہ تعالیٰ کے دین کا غلبہ تھا۔ وہ ایک خدا کی پرستار اور ایک نبی کی رہنمائی کو قبول کرنے والی تھی۔ اور پورے جزیرہ عرب میں کسی دو سرے دین کے لیے کوئی گنجائش باقی نہ رہی تھی۔ بعض اہل تفسیر کے نزدیک معاد سے مراد مکہ مکرمہ ہے۔ اور صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت ابن عباس ( رض) سے معاد کی یہی تفسیر منقول ہے۔ آئمہ تفسیر میں سے مقاتل کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہجرت کے وقت غار ثور سے رات کے وقت نکلے اور مکہ سے مدینہ جانے والے معروف راستہ کو چھوڑ کر دوسرے راستوں سے سفر کیا۔ کیونکہ دشمن تعاقب میں تھے۔ جب مقام جحفہپر پہنچے جو مدینہ طیبہ کے راستہ کی مشہور منزل رابغ کے قریب ہے اور جہاں سے مکہ سے مدینہ کا معروف راستہ مل جاتا ہے اس وقت مکہ مکرمہ کے راستہ پر نظر پڑی تو بیت اللہ اور وطن یاد آئے۔ اس وقت حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) یہ آیت لے کر نازل ہوئے جس میں آپ ﷺ کو بشارت دی گئی کہ مکہ مکرمہ سے یہ جدائی چند روزہ ہے اور بالآخر آپ ﷺ کو مکہ مکرمہ پہنچا دیا جائے گا جو فتح مکہ کی بشارت تھی۔ (قرطبی) اگر معاد کا یہ مفہوم بھی مراد لیا جائے اور حدیث میں ذکر ہونے کی وجہ سے بہتر ہے کہ یہی مراد لیا جائے تو سابقہ مفہوم اور اس مفہوم میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ کیونکہ معاد کو بہترین انجام اس لیے قرار دیا گیا کہ اس سے مراد آنحضرت ﷺ کی دعوت اور آپ ﷺ کے لائے ہوئے دین کا پورے جزیرہ عرب پر غلبہ تھا اور اس انقلاب کو برپا ہونا تھا جس کے لیے آپ ﷺ کو مبعوث کیا گیا تھا اور فتح مکہ بھی ظاہر ہے کہ اسی انقلاب کی کامیابی سے عبارت اور اسی انقلاب کی تکمیل کا پیش خیمہ ہے اور یہی وہ بہترین انجام ہے جس کے بعد پورے جزیرہ عرب پر اللہ تعالیٰ کا دین غالب آگیا اور اس کے دو ہی سال بعد نبی کریم ﷺ کو واپس بلالیا گیا۔ کیونکہ آپ ﷺ جس مقصد کے لیے تشریف لائے تھے وہ مقصد پورا ہوگیا۔ اس آیت کے دوسرے حصے میں تسلی کے اس مضمون کو ایک دوسرے پہلو سے مکمل فرمایا، یعنی آپ ﷺ کا اب تک معمول رہا ہے کہ آپ ﷺ ہدایت کی امید لیے ہوئے ہر دروازے پر دستک دیتے رہے ہیں اور مخالفین کی اذیتوں اور بدزبانیوں کے مقابلے میں بھی آپ ﷺ نے نہایت صبر سے کام لیا ہے اور تبلیغ و دعوت میں کبھی کمی نہیں آنے دی۔ اور مخالفین نے جیسے بھی اعتراضات اٹھائے آپ ﷺ نے اس کا جواب دیا۔ اب ان مخالفین سے بحث کا دروازہ بند کردیجیے اور صاف صاف ان سے کہہ دیجیے کہ میرا رب خوب جانتا ہے کہ کون اللہ تعالیٰ کی ہدایت لے کر آیا ہے اور کون کھلی ہوئی گمراہی میں پڑا ہوا ہے۔ اب معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے۔ وہی فیصلہ فرمائے گا کہ کون ہدایت پر ہے اور کون گمراہی پر۔ کیونکہ جہاں تک افہام و تفہیم کا تعلق ہے اس میں کوئی کمی باقی نہیں رہی۔ اب تم اپنے رویئے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہو۔
Top