Ruh-ul-Quran - Al-Qasas : 88
وَ لَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ١ۘ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١۫ كُلُّ شَیْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ١ؕ لَهُ الْحُكْمُ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ۠   ۧ
وَلَا تَدْعُ : اور نہ پکارو تم مَعَ اللّٰهِ : اللہ کے ساتھ اِلٰهًا : کوئی معبود اٰخَرَ : دوسرا لَآ : نہیں اِلٰهَ : کوئی معبود اِلَّا هُوَ : اس کے سوا كُلُّ شَيْءٍ : ہر چیز هَالِكٌ : فنا ہونے والی اِلَّا : سوا اس کی ذات وَجْهَهٗ : اس کی ذات لَهُ : اسی کے لیے۔ کا الْحُكْمُ : حکم وَ : اور اِلَيْهِ : اس کی طرف تُرْجَعُوْنَ : تم لوٹ کر جاؤگے
اور اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکارو، کوئی معبود نہیں بجز اس کے، اس کی ذات کے سوا ہر چیز فانی ہے، اسی کی حکمرانی ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جائو گے
وَلاَ تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـھًا اٰخَرَ م لَآاِلٰہَ اِلاَّھُوَ قف کُلُّ شَیْ ئٍ ھَالِکٌ اِلاَّ وَجْھَہٗ ط لَـہُ الْحُکْمُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ۔ (القصص : 88) (اور اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکارو، کوئی معبود نہیں بجز اس کے، اس کی ذات کے سوا ہر چیز فانی ہے، اسی کی حکمرانی ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔ ) آنحضرت ﷺ کی دعوت توحید کا نچوڑ سابقہ مضمون کا تسلسل جاری ہے، اس آیت تک پہنچتے پہنچتے اس کی لو اور تیز ہوگئی ہے۔ آنحضرت ﷺ کی بعثت کے وقت شرک نے ایسی وسعت اور متنوع صورت اختیار کرلی تھی کہ جس کا ازالہ آسان نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کا وہ گھر جسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے توحید کا مرکز بنایا تھا بت پرستی کا ایک بہت بڑا تیرتھ بن چکا تھا۔ آنحضرت ﷺ کی دعوت مشرکین کے لیے ناقابل برداشت ہوتی جارہی تھی۔ اس لیے پیش نظر آیت کریمہ میں اس طرح اس مضمون کو کھول دیا گیا ہے کہ جس میں مداہنت کا ہر امکان ختم ہوجاتا ہے اور مخالفین پر اچھی طرح یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ تم نبی کریم ﷺ سے اس معاملے میں کسی نرمی کی امید مت رکھو۔ چناچہ اس طرح کی ہر امید کو ختم کرنے کے لیے آپ سے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور معبود کو نہ پکاریں۔ حالانکہ آپ سے اس کی کسی طرح امید نہیں ہوسکتی۔ لیکن بتایا صرف یہ ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کو ایسی تاکید کے ساتھ یہ حکم دیا جارہا ہے تو دوسرے لوگوں کو اس کی اہمیت اچھی طرح جان لینی چاہیے۔ اور دوسرا معبود پکارنے سے اس لیے روکا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور معبود کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کائنات کی ہر چیز اس کے سوا فانی ہے۔ ہر چیز اس کے فرمان کے سامنے سرافگندہ ہے۔ کسی کی مجال نہیں کہ دم مار سکے۔ فیصلے کا تمام اختیار اسی کے ہاتھ میں ہے۔ یہ چند روزہ زندگی گزارنے کے بعد آخرکار اسی کے پاس لوٹ کے جانا ہے۔ عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری اس طرح ہو کہ ہر جبین پر اس کی بندگی کا روشن نشان چمک رہا ہو اور دل اس کی محبت سے سرشار ہو، سینہ اس کے نورمعرفت سے منور ہو، کیونکہ اس کے تعلق کا یہی کم سے کم تقاضا ہے۔
Top