Ruh-ul-Quran - Al-Ankaboot : 26
فَاٰمَنَ لَهٗ لُوْطٌ١ۘ وَ قَالَ اِنِّیْ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّیْ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
فَاٰمَنَ : پس ایمان لایا لَهٗ : اس پر لُوْطٌ : لوط وَقَالَ : اور اس نے کہا اِنِّىْ : بیشک میں مُهَاجِرٌ : ہجرت کرنیوالا اِلٰى رَبِّيْ : اپنے رب کی طرف اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہ الْعَزِيْزُ : زبردست غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
پس لوط، ابراہیم پر ایمان لائے اور ابراہیم نے کہا میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرتا ہوں، بیشک وہی زبردست ہے حکمت والا ہے
فَاٰ مَنَ لَـہٗ لُوْطٌ م وَقَالَ اِنِّیْ مُھَا جِرٌاِلٰی رَبِّیْ ط اِنَّـہٗ ھُوَالْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ ۔ (العنکبوت : 26) (پس لوط، ابراہیم پر ایمان لائے اور ابراہیم نے کہا میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرتا ہوں، بیشک وہی زبردست ہے حکمت والا ہے۔ ) حضرت لوط (علیہ السلام) کا قبولیتِ ایمان اور جرأتِ حق سیاقِ کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آگ کے الائو سے بخیریت تمام نکل آئے تو آپ ( علیہ السلام) نے اس وقت وہاں موجود لوگوں سے گفتگو کرتے ہوئے یہ باتیں ارشاد فرمائیں۔ ممکن ہے یہ خیال رہا ہو کہ اتنا بڑا معجزہ دیکھ کر طبیعتوں میں یقینا ایک انقلاب آیا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ میری باتوں سے ان کے ذہن کے بند دریچے کھل جائیں اور انھیں ایمان کی دولت نصیب ہوجائے، لیکن اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ اتنے بڑے مجمع میں سوائے حضرت لوط (علیہ السلام) کے کسی کو ایمان کی دولت نصیب نہیں ہوئی۔ وہ نوجوان تھے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے بھی۔ انھوں نے آگے بڑھ کر آپ ( علیہ السلام) پر ایمان لانے کا اعلان کیا۔ ممکن ہے کچھ اور لوگ بھی اپنے اندر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی صداقت کا اعتراف رکھتے ہوں۔ لیکن حکومت کی غضب ناکی کو دیکھتے ہوئے کسی کو زبان کھولنے کی جرأت نہ ہوئی۔ ہر شخص جانتا تھا کہ ابراہیم ابھی جس عظیم آزمائش سے بچ کے نکلے ہیں وہ کسی ذاتی دشمنی کا نتیجہ تو نہ تھی بلکہ انھیں ان خیالات کی سزا دی جارہی تھی جن کی طرف وہ سب کو دعوت دے رہے تھے۔ اب اگر کوئی ان خیالات کو قبول کرنے کا اعلان کرتا تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ بھی ابراہیم کی طرح ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کو تیار ہے۔ ایسا حوصلہ بڑی مشکل سے نصیب ہوتا ہے۔ صرف ایک حضرت لوط (علیہ السلام) تھے جنھوں نے ایک مومن کی جرأت کا اظہار کیا۔ کیونکہ ان کی فطرت نہایت سلیم، ان کے جذبات نہایت صالح اور قبولیتِ حق ان کے دل کی آواز تھی۔ وہ آئندہ چل کر نبی بننے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا نبی نبوت کے منصب پر ایک خاص عمر کو پہنچ کر اللہ تعالیٰ کے حکم سے فائز ہوتا ہے لیکن اس کی طبیعت میں وہ تمام جوہر پوشیدہ ہوتے ہیں جس کا اظہار آگے چل کر ہونے والا ہوتا ہے۔ وہ اگرچہ بت پرستوں کے دیس میں رہتا ہے لیکن بت پرستی سے نفرت کرتا ہے۔ اسے نبوت سے پہلے یہ خبر تو نہیں ہوتی کہ ایمان کی تفصیلات کیا ہیں اور خدا پرستی کی تعریف کیا ہے۔ لیکن وہ کفر و شرک کی ہر آلودگی سے پاک ہوتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی پس پردہ تربیت کے باعث بلند سیرت و کردار کی حامل زندگی گزارتا ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کو انہی بنیادی خصوصیات کے باعث اظہارِ ایمان میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔ لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ اس پوری قوم میں قبولیتِ ایمان کی کوئی رمق باقی نہیں۔ اس شہر کا مزاج اور اس قوم کے جذبات صرف کفروشرک کے لیے سازگار ہیں۔ بنابریں اللہ تعالیٰ کے کسی پیغمبر کے لیے یہ سر زمین اب سازگار نہیں۔ یہ قوم پہلے ہی میرے خون کی پیاسی ہے اور میرے قتل کے لیے بہانہ ڈھونڈتی ہے۔ میرا یہاں مزید قیام تبلیغ و دعوت کے نقطہ نگاہ سے کسی طرح مناسب نہیں۔ اس لیے آپ ( علیہ السلام) نے اعلان کیا کہ اب میرا بظاہر کوئی ٹھکانہ نہیں، لیکن ساری زمین اللہ تعالیٰ کی ہے۔ میں اپنے اللہ ہی کی طرف ہجرت کی نیت سے جارہا ہوں۔ وہ ضرور مجھے کوئی ٹھکانہ دے گا۔ وہ سب پر غالب ہے، اس کے فیصلے کو کوئی نہیں روک سکتا۔ وہ حکمت والا ہے، وہی جانتا ہے کہ یہ شہر مجھ سے کوئی فائدہ کیوں نہیں اٹھا سکا۔
Top