Ruh-ul-Quran - Al-Ankaboot : 34
اِنَّا مُنْزِلُوْنَ عَلٰۤى اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْیَةِ رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ
اِنَّا : بیشک ہم مُنْزِلُوْنَ : نازل کرنے والے عَلٰٓي : پر اَهْلِ : لوگ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ : اس کی بستی رِجْزًا : عذاب مِّنَ السَّمَآءِ : آسمان سے بِمَا : اس وجہ سے کہ كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ : وہ بدکاری کرتے تھے
ہم اس بستی کے لوگوں پر ان کی نافرمانیوں کی پاداش میں آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں
اِنَّا مُنْزِلُوْنَ عَلٰٓی اَھْلِ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ رِجْزًا مِّنَ السَّمَآئِ بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ ۔ (العنکبوت : 34) (ہم اس بستی کے لوگوں پر ان کی نافرمانیوں کی پاداش میں آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں۔ ) قوم لوط پر عذاب الٰہی فرشتوں کے توسط سے حضرت لوط (علیہ السلام) کو یہ اطمینان دلا کر کہ آپ اور آپ کے اہل خانہ اس عذاب سے محفوظ رہیں گے تو پھر انھیں اس فیصلہ الٰہی کی خبر دی کہ ہم اس بستی والوں پر قہرآسمانی نازل کرنے والے ہیں۔ ” رجز “ سے مراد اس طرح کا عذاب ہے جو سننے اور دیکھنے والوں کے دلوں میں کپکپی پیدا کردے اور من السماء کے لفظ نے اس کی شدت اور ہولناکی میں اور اضافہ کردیا ہے۔ اگرچہ عذاب کا لفظ ہی دہلا دینے کے لیے کافی ہے لیکن جب عذاب آسمانی یا قہرالٰہی کہا جاتا ہے تو اس کی شدت اور تباہی میں بےپناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ چناچہ ان الفاظ سے اس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ان بدبختوں نے اخلاق اور شرافت کے پرخچے اڑائے ہیں اسی طرح اب ان کے چیتھڑے اڑیں گے۔ اور آخر میں فرمایا کہ ان پر یہ عذاب اس وقت نازل کیا جارہا ہے جب ان کی سرکشی اور نافرمانی اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم پر شدید ترین عذاب اس وقت بھیجتا ہے جب وہ قوم شدید ترین نافرمانی کی خوگر ہوجاتی ہے۔
Top