Ruh-ul-Quran - Al-Ankaboot : 36
وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا١ۙ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ ارْجُوا الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ
وَ : اور اِلٰى مَدْيَنَ : مدین کی طرف اَخَاهُمْ : ان کا بھائی شُعَيْبًا : شعیب کو فَقَالَ : پس اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : تم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ وَارْجُوا : اور امید وار رہو الْيَوْمَ الْاٰخِرَ : آخرت کا دن وَ : اور لَا تَعْثَوْا : نہ پھرو فِي الْاَرْضِ : زمین میں مُفْسِدِيْنَ : فساد کرتے ہوئے (مچاتے)
اور ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا، تو اس نے کہا، اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو اور یوم آخرت کے امیدوار رہو اور زمین میں مفسد بن کر زیادتیاں نہ کرتے پھرو
وَاِلٰی مَدْیَنَ اَخَاھُمْ شُعَیْبًال فَقَالَ یٰـقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَارْجُوا الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَلاَ تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ ۔ (العنکبوت : 36) (اور ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا، تو اس نے کہا، اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو اور یوم آخرت کے امیدوار رہو اور زمین میں مفسد بن کر زیادتیاں نہ کرتے پھرو۔ ) مزید چند تاریخی حوالے اختصار کے ساتھ اس سورة کے آغاز میں تمہیدی طور پر چند بنیادی باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں اور پھر ان کی تائید اور وضاحت کے لیے چند انبیائے کرام کی سرگزشتیں کسی قدر تفصیل کے ساتھ ذکر کی گئی ہیں۔ اب انھیں باتوں کو مزید اجاگر کرنے کے لیے نہایت اختصار کے ساتھ چند تاریخی حوالے دیے جارہے ہیں جن سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ جب بھی اللہ تعالیٰ کے کسی رسول نے انسانوں کی ہدایت کے لیے تبلیغ و دعوت کا آغاز کیا ہے اور کچھ لوگوں نے اس دعوت سے متأثر ہو کر ایمان کا راستہ اختیار کیا ہے تو کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انھیں آزمایا نہ گیا ہو۔ ایمان ایک ایسی گہری وابستگی کا نام ہے جس کا دعویٰ ضرور آزمایا گیا ہے۔ چناچہ یہی بات ان حوالوں سے بھی پوری طرح واضح فرمائی گئی ہے۔ اسی طرح مخالفین کو تنبیہ کرتے ہوئے یہ فرمایا گیا ہے کہ ہم اپنے پیغمبروں اور ان پر ایمان لانے والوں کو ضرور امتحان میں ڈالتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ ہم انھیں لاوارث چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کو اذیتیں پہنچانے والوں اور ان کی دعوت کا راستہ روکنے والوں کو ایک خاص حد تک ڈھیل دی جاتی ہے لیکن جب پیمانہ بھر جاتا ہے اور ان کی سرکشی انتہائوں کو چھونے لگتی ہے تو پھر ہم انھیں پکڑ لیتے ہیں۔ چناچہ چند معذب قوموں اور معذب افراد کے حوالے سے اس حقیقت کو بھی مبرہن کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے سب سے پہلے اہل مدین یعنی قوم شعیب کا ذکر کیا گیا ہے۔ ہم اس کی تفصیل گزشتہ سورتوں میں پڑھ چکے ہیں۔ یہ قوم بھی قریش کی طرح تجارت پیشہ قوم تھی۔ اور انھوں نے اس میدان میں اس قدر ترقی کی تھی کہ قریش شاید اس کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ لیکن اس کی اصلاح کے لیے جب حضرت شعیب (علیہ السلام) کو رسول بنا کر بھیجا گیا اور انھوں نے انھیں ایک خدا کی بندگی کی دعوت دی اور آخرت کا خوف دلا کر متنبہ کیا کہ تم نے جس طرح کاروباری زندگی کو خیانت اور دھوکے کے کاروبار میں تبدیل کردیا ہے اور اپنے اس دھوکے کے کاروبار سے جو دولت تم نے کمائی ہے اس کے بل بوتے پر تم نے زمین کو فساد سے بھر دیا ہے، اس سے باز آجاؤ۔ بجائے مفسد بننے کے مصلح بن کر زندگی گزارو اور ظلم اور سرکشی کی بجائے حق و عدل کے علمبردار بنو۔ لیکن قوم شعیب نے آپ ( علیہ السلام) کی ایک بات نہ سنی اور اپنی ناعاقبت اندیشی میں تباہی کی طرف بڑھتے چلے گئے۔ اور انھوں نے آج کی طرح یہ سمجھا کہ تجارت کبھی جھوٹ اور فریب کے سوا نہیں ہوسکتی۔ اور دولت اپنے ساتھ خیال اور عمل کی جس بےراہ روی کو لے کر آتی ہے اگر اسے اختیار نہ کیا گیا تو دولت حاصل کرنے کا کیا فائدہ۔
Top