Ruh-ul-Quran - Al-Ankaboot : 42
اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَیْءٍ١ؕ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا يَدْعُوْنَ : جو وہ پکارتے ہیں مِنْ : سے دُوْنِهٖ : اس کے سوا مِنْ شَيْءٍ : کوئی چیز وَهُوَ : اور وہ الْعَزِيْزُ : غالب زبردست ہے الْحَكِيْمُ : حکمت والا
بیشک اللہ خوب جانتا ہے ان چیزوں کو جن کو وہ اس کے سوا پکارتے ہیں اور وہی زبردست اور حکمت والا ہے
اِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مِنْ شَیْ ئٍ ط وَھُوَالْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ ۔ (العنکبوت : 42) (بےشک اللہ خوب جانتا ہے ان چیزوں کو جن کو وہ اس کے سوا پکارتے ہیں اور وہی زبردست اور حکمت والا ہے۔ ) اللہ تعالیٰ ہر چیز کی حقیقت سے آگاہ ہے اوپر کی تمثیل سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ مشرکین نے جن دیویوں اور دیوتائوں یا دیگر قوتوں کو خدا کا شریک بنا رکھا ہے ان کی تحقیر میں مبالغے سے کام لیا گیا ہے اور دلوں میں نفرت پیدا کرنے کے لیے ابلاغ کو ایک حربے کے طور پر کام میں لایا گیا ہے، ایسی کوئی بات نہیں۔ اس تمثیل میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ بالکل حقیقت ہے۔ تمام جھوٹے معبودوں کی قوت اللہ تعالیٰ کی قوت کے مقابلے میں اتنی بھی نہیں جیسے مکڑی کا جالا ہوتا ہے۔ یہ تمثیل بھی تقریبِ فہم کے لیے ہے، حقیقت نہیں۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کسی بڑی سے بڑی قوت کی بھی کوئی حقیقت نہیں جسے مثال میں بیان کیا جاسکے جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی عظمت اور ہیبت کا عالم یہ ہے کہ وہ عزیز ہے یعنی سب پر غالب اور سب کی رسائی سے بالاتر۔ غلبے اور بلندی کا کوئی تصور بھی ہمیں اس کے قریب نہیں لے جاسکتا۔ اس کی شان میں اس کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْ ئٌ۔ کوئی اس کے غلبے کو چیلنج نہیں کرسکتا۔ اور جب وہ پکڑنا چاہے تو کوئی اس کی گرفت سے بچ کر نکل نہیں سکتا۔ اسی طرح وہ حکیم بھی ہے۔ حکیم کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ ہر کام کا کوئی نہ کوئی مقصد اور کوئی نہ کوئی غایت ہوتی ہے۔ انسانوں کو نہ صرف پیدا کیا بلکہ حواس اور عقل عطا کرنے کے ساتھ ساتھ وحی الٰہی کی رہنمائی سے بھی بہرہ ور کیا اور زمین کی خلافت کا تاج پہنایا اور بہت کچھ اختیارات دے کر زمینی معاملات میں فی الجملہ آزادی عطا فرمائی۔ اس صورتحال کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ ایسی مؤثر، آزاد اور فعال مخلوق سے کبھی بازپرس نہیں کی جائے گی۔ اور پھر اس بازپرس میں عدل کو بروئے کار نہیں لایا جائے گا۔ اور یہ بات بالکل سامنے کی ہے کہ عدل کو بروئے کار لانے کے لیے قانونِ مجازات کی ضرورت ہے۔ تو جو ذات عزیز بھی ہو اور عادل بھی اس کی یہاں یہ تصور بھی گناہ ہے کہ کوئی قوت اس کے غلبے اور عدل کو متأثر کرسکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ مشرکین کے تصوراتی معبود نہ اللہ تعالیٰ کے غلبے کو چیلنج کرسکتے ہیں اور نہ اس کے عدل پر سرمو اثرانداز ہوسکتے ہیں، تو آخر یہ کس مرض کی دوا ہیں۔ جو احمق لوگ ان کی پوجا کرتے ہیں آخر وہ کیا سمجھ کر کرتے ہیں۔ لیکن دنیا میں حماقتیں ہمیشہ رہی ہیں نہ پہلے ان کا علاج ہوا ہے اور نہ آج ہوسکتا ہے۔
Top