Ruh-ul-Quran - Al-Ankaboot : 68
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَآءَهٗ١ؕ اَلَیْسَ فِیْ جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْكٰفِرِیْنَ
وَمَنْ : اور کون اَظْلَمُ : بڑا ظالم مِمَّنِ : اس سے جس نے افْتَرٰي : باندھا عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر كَذِبًا : جھوٹ اَوْ كَذَّبَ : یا جھٹلایا اس نے بِالْحَقِّ : حق کو لَمَّا : جب جَآءَهٗ ۭ : وہ آیا اس کے پاس اَلَيْسَ : کیا نہیں فِيْ جَهَنَّمَ : جہنم میں مَثْوًى : ٹھکانہ لِّلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے
اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا حق کو جھٹلائے جبکہ وہ اس کے پاس آچکا ہے، کیا ایسے کافروں کا ٹھکانہ جہنم میں نہیں ہوگا
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْکَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَآئَ ہٗ ط اَلَیْسَ فِیْ جَھَنَّمَ مَثْوًی لِّلْکٰفِرِیْنَ ۔ (العنکبوت : 68) (اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا حق کو جھٹلائے جبکہ وہ اس کے پاس آچکا ہے، کیا ایسے کافروں کا ٹھکانہ جہنم میں نہیں ہوگا۔ ) عقلِ عام سے ایک سوال قریش کے خیالات اور طرزعمل کو دلائل سے رد کرنے کے بعد عقل عام کے سامنے سوال رکھ دیا ہے کہ کیا ایسا شخص جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اختیارات کو تسلیم کرلینے کے باوجود غیر اللہ کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرائے اور اس پر ستم یہ ڈھائے کہ اپنی اس جسارت کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرے کہ ان باتوں کا حکم ہمیں اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ اسی لیے ہمارے آبائواجداد اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے رہے ہیں جبکہ اس انتساب کی نہ ان کے پاس کوئی دلیل ہے اور نہ سند۔ ایک ایجادِبندہ ہے جس پر اصرار کیا جارہا ہے۔ عقل اس بات کا فیصلہ کرے کہ ایک بےسند بات جو محض اپنے دل سے گھڑ لی گئی ہے اور نہایت ناروا جسارت کرتے ہوئے اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جارہا ہو، کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی ظلم ہوسکتا ہے۔ اور جو شخص یہ حرکت کرتا ہے کیا کوئی شخص اس سے بڑھ کر ظالم ہوسکتا ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ نبی کریم ﷺ نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور قریش نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا ہے اور آپ کی تکذیب کی ہے۔ اب معاملہ دو حال سے خالی نہیں کہ اگر آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا نام لے کر جھوٹا دعویٰ کیا ہے تو آپ سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں۔ اور اگر قریش نے اللہ تعالیٰ کے سچے نبی کی تکذیب کی ہے تو پھر ان سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں۔ اور آپ کی پاکیزہ سیرت اور آپ کا بلند کردار اور آپ کا زندگی بھر کا ریکارڈ گواہی دیتا ہے کہ آپ جھوٹا دعویٰ نہیں کرسکتے۔ آپ کے دشمن بھی اعتراف کرتے ہیں کہ آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ قریش آپ کی تکذیب کرکے ظلم کا ارتکاب کررہے تھے۔ تو کیا ایسے کافروں کا ٹھکانہ جہنم نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا۔ لَمَّا جَآئَ ہٗسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نبی کریم ﷺ تو اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں ان کی تشریف آوری سے قریش کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اب ان کے لیے معاملہ پہلے سے زیادہ سنگین ہوگیا ہے۔ پہلے تو ان کے پاس یہ عذر ہوسکتا تھا کہ ہم اگر شرک کا ارتکاب کررہے ہیں تو ہم نے اپنے آبائواجداد کو ایسا ہی پایا ہے تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔ لیکن اب جبکہ آنحضرت ﷺ ہدایت کے ساتھ تشریف لے آئے اور آپ نے حق کو پوری طرح واضح کردیا اور باطل کا باطل ہونا دلائل سے ثابت کردیا تو اب ان کے پاس کوئی عذر باقی نہیں رہا۔ اب شرک کا ارتکاب اور آپ کی تکذیب ایک ایسا جرم ہے جو اس جرم کے کرنے والوں کو جہنم میں پہنچا کے چھوڑے گا۔
Top