بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 1
الٓمَّٓۙ
الٓٓمَّ : الف لام میم
( ال م
الٓـمَّٓ۔ لا اَللّٰہُ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ھُوَلا الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ۔ ط نَزَّلَ عَلَیْکَ الْـکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَاَنْزَلَ التَّوْرٰۃَ وَالْاِنْجِیْلَ ۔ لا مِنْ قَبْلُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَاَنْزَلَ الْفُرْقَانَ 5 ط اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ ط وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَامٍ ۔ ط (ال م۔ اللہ ہی معبود ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ زندہ اور قائم رکھنے والا۔ اس نے تم پر کتاب نازل کی حق کے ساتھ، تصدیق کرتی ہوئی اس کی جو اس کے آگے سے موجود ہے اور اس نے نازل کی تورات اور انجیل۔ اس سے پہلے لوگوں کے لیے ہدایت بنا کر اور اس نے کسوٹی اتاری ( جو حق اور باطل کا فرق دکھانے والی ہے) بیشک جن لوگوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا ان کے لیے سخت عذاب ہے اور اللہ غالب اور انتقام لینے والا ہے) ( 1 تا 4) ا لم حروف مقطعات میں سے ہے۔ سورة البقرہ کے آغاز میں ہم مقدور بھر اس کی وضاحت کرچکے ہیں۔ اللہ کی الوہیت پر حیات و قیومیت کی صفات سے استدلال ش خالق کائنات کا اسم ذاتی ہے۔ سورة الفاتحہ کے آغاز میں ہم اس کے بارے میں تفصیل سے عرض کرچکے ہیں۔ اسی بحث میں ہم نے الہ کے معنی اور مفہوم کو بھی واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سورت کے اسلوبِ بیان کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس میں استدلال بیشتر صفات الٰہی سے ہے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں بھی صفات الٰہی سے استدلال کیا گیا ہے کہ اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ اس کے سوا کوئی ایسی ذات نہیں جو اس کائنات کی خالق ومالک اور مدبر کہی جاسکے۔ اس کائنات کی تمام مخلوقات پر اسی کی حکومت ہے ‘ اسی کا قانون ہر جگہ کارفرما ہے ‘ جن و انس پر اس کے قانونِ تکوین کے ساتھ ساتھ تشریعی قانون بھی نافذ ہے۔ اس کے اثبات کے لیے ” الحی “ اور ” القیوم “ دو صفتوں کو ذکر کیا گیا۔ الحی کا معنی ہے وہ ذات جو ازل سے زندہ ہو، جس کی زندگی ذاتی ہو، جس کی زندگی اور حیات کو کبھی زوال نہ آئے اور القیوم وہ ذات ہے جو اپنی ذات کے بل بوتے پر قائم ہو اور باقی تمام کائنات اس کے دم قدم سے باقی ‘ آباد اور زندہ ہو۔ وہ تمام کائنات کو سنبھالنے والی اور اس کو ثبات وقرار عطا کرنے والی ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں صفتیں صرف اللہ کے لیے سزاوار ہیں کیونکہ کائنات میں کوئی ایسی مخلوق نہیں جو ہمیشہ سے ہو۔ مخلوق کا تصور بجائے خود اس کے حادث ہونے کی دلیل ہے۔ یہ لفظ خود بولتا ہے کہ جس کو بھی مخلوق کہا جائے اس پر کبھی ایسا زمانہ ضرور گزرا ہوگا جب وہ معدوم تھا۔ عدم سے وجود میں آنا یہی خلق ہے۔ اللہ کی صفت تخلیق نے ہر چیز کو عدم سے وجود بخشا ہے اور ہر مخلوق اور ہر چیز پر جب عدم طاری تھا تو وہ حیات سے محروم تھی۔ اس لیے اسے الحی نہیں کہا جاسکتا اور دوسری یہ بات کہ الحی وہ ہے جو ہمیشہ زندہ رہے اور اسے کبھی موت نہ آئے۔ یہ تعریف بھی اللہ کے سوا کسی اور پر صادق نہیں آتی کیونکہ کوئی ایسی مخلوق اللہ نے پیدا نہیں فرمائی جو فنا نہیں ہوگی۔ ہر مخلوق کی ایک عمر ہے۔ وہ چاہے کتنی طویل ہو لیکن کبھی نہ کبھی اس کا اختتام ہونا ہے۔ مخلوقات میں سب سے برتر مخلوق اللہ کے پیغمبر ہیں اور پیغمبروں میں اللہ نے جسے سب کی سیادت عطا کی ہے وہ سید الاولین و الآخرین رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی ہے۔ اگر عزت و حرمت اور فضل و کمال دوام کا باعث ہوتا تو کسی پیغمبر کو موت نہ آتی اور ہمارے رسول پاک ﷺ تو یقینا ہمیشہ دنیوی حیات کے ساتھ موصوف رہتے۔ لیکن سب مسلمان جانتے ہیں کہ تمام پیغمبر بھی اپنے اپنے وقت میں دنیا سے تشریف لے گئے اور آنحضرت ﷺ نے بھی دنیا سے سفر فرمایا۔ اگر کسی مخلوق کو ہمیشگی اور دوام ہوتا تو آنحضرت ﷺ کو کبھی موت کا سفر نہ کرنا پڑتا۔ امیر مینائی نے ٹھیک کہا ؎ جو زندہ ہے وہ موت کی تکلیف سہے گا جب احمد مرسل نہ رہے کون رہے گا اللہ کی یہ دونوں صفات اللہ کی حیات ذاتی اور دوام مطلق پر دلالت کرتی ہیں اور اس سے بہتر اللہ کی ذات کا تعارف ممکن نہیں۔ لیکن انہی دونوں صفات کے ذریعے بعض حقائق کی طرف بھی اشارے فرمائے گئے جو ان الفاظ پر غور کرنے سے خود بخود افق ذہن پر ابھرنے لگتے ہیں۔ غور فرمایئے ! اللہ کی ذات ” الحی “ ہے۔ وہ زندہ ہونے کی وجہ سے کائنات کی ایک ایک حرکت اور ہمارے ایک ایک عمل کو دیکھ رہا ہے۔ ہمارے تصورات تک اس کے علم میں ہیں۔ ہماری کوئی چیز خفیہ ہو یا اعلانیہ اس سے مخفی نہیں۔ جن و انس کو اللہ نے عقل اور شعور سے نوازا ہے۔ وہ جب اللہ کی صفت حیات کا تصور کرتا ہے تو یقینا اس کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ جب ہمارے تمام اعمال اللہ کی نگاہ میں ہیں تو کیا یہ اس کا فطری تقاضا نہیں کہ ہم جاننے کی کوشش کریں کہ اللہ کس طرح کے اعمال پر خوش ہوتا ہے اور کن اعمال سے ناخوش ہوتا ہے کیونکہ جو مخلوقات لگے بندھے طریقے سے اپنی جبلت کے جبر کے تحت زندگی کے معمولات انجام دینے کی پابند ہیں ان کے لیے تو سوچنے کا کوئی موقع نہیں ‘ لیکن جن مخلوقات کو شعور اور عقل سے نوازا گیا ہے ان کے لیے تو ضروری ہے کہ وہ جاننے کی کوشش کریں کہ ہم جس کی نگاہوں میں ہیں اور جو ہمارا خالق ومالک بھی ہے۔ کیا ہمیں یہ زیب دیتا ہے کہ ہم اس کی نگاہوں میں رہ کر ایسے کام کریں جو اس کی ناراضگی کا سبب بنتے ہیں۔ ہماری سوچ کا اولین تقاضا ہے کہ ہمیں اگر اپنے آقا کی خوشنودی کے حصول کا ذریعہ معلوم ہوجائے تو ہم یقینا اس طریقے سے عمل کر کے اپنے اللہ کی رضا کو حاصل کریں اور سعادت اور خوش بختی کا مقام پانے کی تگ ودو کریں۔ اسی طرح اللہ کی صفت ” قیومیت “ کو دیکھتے ہوئے خود بخود دل میں یہ احساس ابھرتا ہے کہ وہ ذات جس نے ہمیں زندگی بخشی ‘ زندگی کے امکانات عطا کیے ‘ زندگی کی بقا کا سروسامان کیا ‘ ہماری ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے زمین کے اندر قوت روئیدگی رکھی اور زمین کے اوپر نعمتوں کا دسترخوان بچھا یا اور پھر اسی پر اکتفاء نہیں کیا کہ ہماری ضرورت کے مطابق سامانِ ضرورت پیدا کردیا بلکہ ہماری جمالیاتی حس کی تسکین کے لیے حسن و جمال کی ایک پوری دنیا ہمارے گرد و پیش میں پھیلا دی۔ ہماری غذا کے لیے صرف گندم پیدا نہیں فرمائی بلکہ اس کو نقرئی لباس عطا کر کے نگاہوں کی لذت کا سامان پیدا کردیا۔ زمین کو سبزے کا مخملیں لباس پہنایا پھر زمین کی سطح پر پھولوں کے ایسے خوش رنگ دستے پھیلائے جس نے زمین کو جنت نظیر بنادیا۔ ہمیں لکڑی کی ضرورت تھی لیکن اس نے درختوں کو چھتریاں عطا کیں ‘ ہمیں پانی درکار تھا ‘ اس نے دریا بہائے ‘ چشمے اچھالے ‘ آبشاریں گرائیں اور پہاڑوں پر برف کے تودے پگھلا کر ایک ایسا حسن و جمال کا منظر پیدا فرمایا کہ جب برف کے تودے پگھلتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے چاندی پگھلتی ہے۔ جب چشمے اچھلتے ہیں معلوم ہوتا ہے چاندی کے فوارے اچھلتے ہیں۔ یہ تمام ضرورتیں ہمارے جسم و جان کے رشتے کو باقی رکھنے کے لیے ہیں حالانکہ ہمارے جسم وجان کا رشتہ حیوانیت سے عبارت ہے اور انسان کی اصل قدروقیمت حیوانیت سے نہیں انسانیت سے ہے۔ جس خالق کائنات نے حیوانی ضرورتوں کو اتنی خوبصورتی اور فراوانی سے پیدا فرمایا یہ کیسے ممکن تھا کہ ہماری انسانی ضرورتوں سے صرف نظر فرماتا۔ ہمارے احساس کو کوئی غذا مہیا نہ کی جاتی، ہمارے دلوں کو یقین و ایمان سے سیراب نہ کیا جاتا، ہماری نگاہوں کو لذت شوق عطا نہ کی جاتی، ہمارے دل و دماغ کی بالیدگی کے لیے اخلاقِ عالیہ کی تعلیم نہ دی جاتی، آدبِ زندگی نہ سکھائے جاتے اور انسانی معاشرت اور انسانی رشتوں کی شیرازہ بندی کے لیے کوئی نظام زندگی نہ دیا جاتا۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ اس کی صفت قیومیت کے خلاف ہوتا کیونکہ یہی تو وہ دولت ہے جس سے انسانی معاشرہ ‘ انسانی سوسائٹی اور انسانی ریاستوں کے در و بست کو مضبوط کرنے اور حقوق و فرائض کے تعلقات کو استوار کرنے اور انسانوں کو انسانوں سے جوڑنے اور افادہ و استفادہ کے عمل کو مکمل کرنے کی ایک صورت پیدا ہوتی ہے۔ حیات و قیومت کا اقتضاء اس لحاظ سے یہ دونوں صفات اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ وہ خدائے زندہ ہماری معنوی اور روحانی زندگی کے لیے بھی ہمیں راہنمائی سے نوازے اور وہ قیوم ذات ہمیں سنبھالنے اور زندگی کے سفر کو رواں دواں رکھنے کے لیے نظام زندگی عطا کرے۔ چناچہ اس نے ایسا ہی کیا ‘ اسی کی دلیل کے طور پر فرمایا نَزَّلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ (اس نے آپ پر کتاب اتاری حق کے ساتھ) حق متعدد معنی میں استعمال ہوتا ہے ‘ لیکن علامہ راغب اصفہانی نے اس کا جو مفہوم بیان فرمایا ہے وہ زیادہ جامع ہے۔ وہ لکھتے ہیں ” الحق للفعل والقول : الواقع بحسب ما یجب وقدر ما یجب وفی الوقت الذی یجب “ (مفردات) ( کوئی قول اور فعل اس وقت حق کہلاتا ہے جب وہ اس طرح پایا جائے جیسے چاہیے ‘ اس انداز سے پایا جایا جتنا مناسب اور موزوں ہو اور اس وقت پایا جائے جب کہ اس کی ضرورت ہو) قرآن ایسے وقت آیا جب کہ پوری دنیا میں حق کی روشنی ماند پڑچکی تھی اور اندھیروں کی حکمرانی تھی اور اس شان کے ساتھ آیا کہ عقل سلیم کو مطمئن کرنے کا مکمل سامان اس میں موجود ہے ‘ دلائل وبراہین کی کوئی قسم ایسی نہیں جس سے اس کتاب میں کام نہیں لیا گیا۔ لفظی اور معنوی اعجاز کے ساتھ ساتھ ایسا ضابطہ حیات لے کے آیا جسے تجربے نے انسانی ضرورتوں کے لیے کافی و شافی پایا اور انسانی زندگی کی راہنمائی کے لیے ایسا اسلوب لے کے آیا جو وقت کے تغیرات کے ساتھ نہ صرف کہ ازکار رفتہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے اشاروں اور دلالتوں سے ہر دور کی ضرورتیں پوری ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ پروردگار نے انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے اور اس کی اصلاح کے عمل کو بروئے کار لانے کے لیے پہلی کتاب نازل کی ہے اور اس سے پہلے کے انسان کو اس رحمت سے محروم رکھا ہے۔ ایسا نہیں۔ بلکہ یہ کتاب تو آخری کتاب ہے ‘ جبکہ انسانیت اپنے شعور اور اجتماعی مصالح کے لحاظ سے بلوغ کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اس سے پہلے ہر دور کے تقاضوں اور ضرورتوں کے مطابق پروردگار مختلف کتابیں بھیج چکا تھا ‘ جن میں سے بطور خاص تورات اور انجیل کو ذکر فرمایا۔ یہ دونوں کتابیں قرآن کریم سے بہت پہلے نازل ہوچکی تھیں اور ان دونوں کے زمانہ نزول کے دوران اور بھی کئی صحیفے اور کتابیں مختلف رسولوں پہ نازل ہوئیں ‘ لیکن ان کا ذکر اس لیے نہیں فرمایا کیونکہ مقصود تمام کتابوں کا استقصا نہیں بلکہ صرف یہ بتلانا ہے کہ اللہ نے ہر دور میں اپنے حئی اور قیوم ہونے کی وجہ سے انسانوں کی رہنمائی اور سنبھالنے کے فرض کو انجام دیا۔ ہر دور میں کوئی نہ کوئی ہدایت نامہ اترتا رہا۔ جب زمانہ نئی ضرورتوں کو جنم دیتا یا اہل زمانہ پہلے سے منزل من اللہ کتاب کو طاق نسیان میں سجادیتے یا ترمیم اور تحریف کے ذریعے اس کی تعلیمات کو بگاڑ دیتے تو نئی کتاب نازل ہوجاتی۔ اب جبکہ کئی صدیوں سے انسان رفتہ رفتہ اپنے بگاڑ کی انتہا کو پہنچ رہا تھا اور پہلے سے منزل کتابیں بگاڑی اور بدلی جا چکی تھیں تو قرآن کریم قیامت تک کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ہدایت کی روشنی بن کر آیا اور ساتھ ساتھ فرقان بن کر بھی۔ یعنی توریت و انجیل کے حاملین نے اللہ کی تعلیمات میں جہاں جہاں حق و باطل کو آپس میں گڈمڈ کردیا تھا یا حق کو بالکل پس پشت ڈال دیا تھا کہ اجتماعی زندگی میں اس کا نشان تک باقی نہ رہا تھا تو قرآن ” فرقان “ بن کے نازل ہوا۔ اس نے ایک ایک گتھی کو سلجھایا ‘ باطل کے پردوں کو ہٹا کر حق کو اپنی اصلی شکل میں ظاہر فرمایا۔ فرقان ” کسوٹی “ اور ” حق و باطل میں فرق کرنے والی چیز “ کو کہتے ہیں۔ قرآن کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے ایک کسوٹی اور معیار بنادیا ہے کہ اب لوگ جب بھی ہدایت کا راستہ پانا چاہیں تو قرآن کی طرف رجوع کریں اور جہاں بھی حق و باطل میں آمیزش یا الجھائو نظر آئے تو قرآن پاک کی راہنمائی میں اس الجھائو کو ختم کرنے کا راستہ نکالیں۔ قرآن کے مصدق ہونے کا مفہوم مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ قرآن پاک جس طرح پہلی کتابوں کے لیے فرقان بن کے آیا اسی طرح مصدّق بن کے بھی آیا۔ ان کی ہر صحیح بات کی تصدیق کی اور جو کچھ لوگوں نے غلط باتیں اس میں شامل کردی تھیں کی تردید کی۔ مصدق ہونے کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ وہ توریت و انجیل کی ایک ایک بات کی تائید و تصدیق کرتا ہے۔ اگر یہ معنی مراد لیا جائے تو یہ قرآن کریم کی اپنی وضاحتوں کے خلاف ہے کیونکہ اس نے جا بجا اہل کتاب کی خیانتیں پکڑی ہیں اور متعدد مواقع پر نشان دہی کی ہے کہ تورات میں اصل حکم یہ تھا تم نے اس کے بدلے میں یہ کردیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ وہ پہلی کتابوں کا مصدق ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان کی ہر صحیح بات کا مصدق ہے ‘ غلط بات کا نہیں۔ بعض اہل علم نے مصدق کا ایک اور مفہوم مراد لیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ پہلی کتابوں نے اپنی پیش گوئیوں میں آنحضرت اور قرآن پاک کی متعدد صفات بیان کی ہیں کہ وہ آخری نبی جب آئے گا تو وہ ایسی اور ایسی صفات کا حامل ہوگا۔ آپ ﷺ کے نام کا ذکر فرمایا گیا ‘ آپ ﷺ کے وطن کا ‘ آپ ﷺ کے دارالہجرت ‘ آپ ﷺ کو پیش آنے والے مصائب کا ‘ پھر آپ ﷺ کی کامیابیوں کا ‘ آپ ﷺ کے کامیاب انقلاب کا ‘ اس ضمن میں آپ ﷺ کے صحابہ کا بھی اور فتح مکہ کا بھی۔ اسی طرح یہ بھی بتایا گیا کہ آپ ﷺ پر کوئی کتاب اترے گی ‘ وہ کس شان و شوکت کے ساتھ نازل ہوگی ‘ اس کی تعلیمات کی جامعیت کیسی ہوگی ‘ اس میں وہ باتیں بھی کہی جائیں گی جو عیسیٰ (علیہ السلام) نہ کہہ سکے ‘ وہ کتاب پہلی کتابوں کی تعلیمات کی جامع اور اللہ کے دین کو کامل کرنے والی ہوگی۔ چناچہ جب نبی کریم ﷺ پہلی کتابوں کے بیان کردہ صفات کا حامل بن کر تشریف لائے اور قرآن کریم انہی صفات کے ساتھ مرصع ہو کے نازل ہوا جو پہلی کتابوں نے بیان کی تھیں تو اس طرح سے آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم نے پہلی کتابوں کی تصدیق کی اور دعوت دی کہ ہمیں غور سے دیکھو ‘ ہمیں پرکھو ‘ کیا ہم بالکل وہی نہیں ہیں جن کو اہل کتاب کی کتابوں نے صدیوں تک پیش گوئی کی صورت میں پیش کیا۔ اگر ہم واقعی وہی ہیں اور اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں تو پھر یوں سمجھئے کہ ہم پہلی کتابوں کے مصدق یا مصداق بن کر آئے ہیں ‘ اس سے جہاں محمد رسول اللہ ﷺ اور قرآن کریم کے اللہ کی جانب سے ہونے کی تصدیق ہوتی ہے وہیں پہلی کتابوں کی بھی منزل من اللہ ہونے کی تصدیق ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے تو اہل کتاب کو سب سے آگے بڑھ کر آنحضرت ﷺ پر ایمان لانا اور قرآن کریم کو سر اور آنکھوں پر رکھنا چاہیے تھا کیونکہ ان دونوں کی سچائی نے ان کی کتابوں کی سچائی پر مہر تصدیق ثبت کردی تھی ‘ لیکن وہ ایسے محروم اور بدقسمت لوگ ہیں کہ بجائے اس ہیرے کو اپنی کلغی میں سجانے کے اس کے انکار اور دشمنی پر کمر بستہ ہوگئے۔ پہلی کتابوں کے قرآن کریم کے مصدق ہونے کی وضاحت کے بعد یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جن کتابوں کو ہم توریت اور انجیل کے نام سے جانتے ہیں ان کی اصل حیثیت کیا ہے ؟ اور قرآن کریم جب ان کی تصدیق کرتا ہے تو وہ اصل میں کس چیز کی تصدیق کرتا ہے ؟ اس سلسلے میں صاحب تفہیم القرآن نے جو کچھ لکھا ہے وہ نہایت قابل قدر ہے۔ وہ لکھتے ہیں : تورات اور انجیل سے کیا مراد ہے ؟ عام طور پر لوگ تورات سے مراد بائبل کے پرانے عہد نامے کی ابتدائی پانچ کتابیں اور انجیل سے مراد نئے عہد نامے کی چار مشہور انجیلیں لے لیتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ الجھن پیش آتی ہے کہ کیا فی الواقع یہ کتابیں کلام الٰہی ہیں ؟ اور کیا واقعی قرآن ان سب باتوں کی تصدیق کرتا ہے جو ان میں درج ہیں ؟ لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ تورات بائبل کی پہلی پانچ کتابوں کا نام نہیں ہے بلکہ وہ ان کے اندر مندرج ہے اور انجیل نئے عہد نامہ کی اناجیل اربعہ کا نام نہیں ہے بلکہ وہ ان کے اندر پائی جاتی ہے۔ دراصل تورات سے مراد وہ احکام ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت سے لے کر ان کی وفات تک تقریباً چالیس سال کے دوران میں ان پر نازل ہوئے۔ ان میں سے دس احکام تو وہ تھے جو اللہ تعالیٰ نے پتھر کی لوحوں پر کندہ کر کے انھیں دیے تھے۔ باقی ماندہ احکام کو حضرت موسیٰ نے لکھوا کر اس کی 12 نقلیں بنی اسرائیل کے 12 قبیلوں کو دے دی تھیں اور ایک نقل بنی لاوی کے حوالے کی تھی تاکہ وہ اس کی حفاظت کریں۔ اسی کتاب کا نام ” تورات “ تھا۔ یہ ایک مستقل کتاب کی حیثیت سے بیت المقدس کی پہلی تباہی کے وقت تک محفوظ تھی۔ اس کی ایک کاپی جو بنی لاوی کے حوالے کی گئی تھی ‘ پتھر کی لوحوں سمیت ‘ عہد کے صندوق میں رکھ دی گئی تھی اور بنی اسرائیل اس کو ” تورات “ ہی کے نام سے جانتے تھے۔ لیکن اس سے ان کی غفلت اس حد کو پہنچ چکی تھی کہ یہودیہ کے بادشاہ یوسیاہ کے عہد میں جب ہیکل سلیمانی کی مرمت ہوئی تو اتفاق سے سردار کاہن (یعنی ہیکل کے سجادہ نشین اور قوم کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا) خِلقیاہ کو ایک جگہ تورات رکھی ہوئی مل گئی اور اس نے ایک عجوبے کی طرح اسے شاہی منشی کو دیا اور شاہی منشی نے اسے لے جا کر بادشاہ کے سامنے اس طرح پیش کیا ‘ جیسے ایک عجیب انکشاف ہوا ہے۔ (ملاحظہ ہو 2۔ سلاطین ‘ باب 22۔ آیت 8 تا 13) یہی وجہ ہے کہ جب بخت نضر نے یروشلم فتح کیا اور ہیکل سمیت شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تو بنی اسرائیل نے تورات کے وہ اصل نسخے جو ان کے ہاں طاق نسیاں پر رکھے ہوئے تھے اور بہت تھوڑی تعداد میں تھے ‘ ہمیشہ کے لیے گم کردیے۔ پھر جب عزرا کاہن (عُزیر) کے زمانے میں بنی اسرائیل کے بچے کھچے لوگ بابل کی اسیری سے واپس یروشلم آئے اور دوبارہ یت المقدس تعمیر ہوا تو عزرا نے اپنی قوم کے چند دوسرے بزرگوں کی مدد سے بنی اسرائیل کی پوری تاریخ مرتب کی ‘ جو اب بائبل کی پہلی 17 کتابوں پر مشتمل ہے۔ اس تاریخ کے چار باب یعنی خروج ‘ احبار ‘ گنتی اور استثناء حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی سیرت پر مشتمل ہیں اور اس سیرت ہی میں تاریخ نزول کی ترتیب کے مطابق تورات کی وہ آیات بھی حسب موقع درج کردی گئی ہیں جو عزرا اور ان کے مددگار بزرگوں کو دستیاب ہو سکیں۔ پس دراصل اب تورات ان منتشر اجزاء کا نام ہے جو سیرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اندر بکھرے ہوئے ہیں۔ ہم انھیں صرف اس علامت سے پہچان سکتے ہیں کہ اس تاریخی بیان کے دوران میں جہاں کہیں سیرت موسوی کا مصنف کہتا ہے کہ خدا نے موسیٰ سے فرمایا ‘ یا موسیٰ نے کہا کہ خداوند تمہارا خدا یہ کہتا ہے ‘ وہاں سے تورات کا ایک جز شروع ہوتا ہے اور جہاں پھر سیرت کی تقریر شروع ہوجاتی ہے وہاں وہ جزو ختم ہوجاتا ہے۔ بیچ میں جہاں کہیں کوئی چیز بائبل کے مصنف نے تفسیر و تشریح کے طور پر بڑھا دی ہے وہاں ایک عام آدمی کے لیے یہ تمیز کرنا سخت مشکل ہے کہ آیا یہ اصل تورات کا حصہ ہے یا شرح و تفسیر۔ تاہم جو لوگ کتب آسمانی میں بصیرت رکھتے ہیں وہ ایک حد تک صحت کے ساتھ یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ ان اجزاء میں کہاں کہاں تفسیری و تشریحی اضافے ملحق کردیے گئے ہیں۔ قرآن انہی منتشر اجزاء کو ” تورات “ کہتا ہے اور انہی کی وہ تصدیق کرتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان اجزاء کو جمع کر کے جب قرآن سے ان کا مقابلہ کیا جاتا ہے تو بجز اس کے کہ بعض بعض مقامات پر جزوی احکام میں اختلاف ہے ‘ اصولی تعلیمات میں دونوں کتابوں کے درمیان یک سرِ مو فرق نہیں پایا جاتا۔ آج بھی ایک ناظر صریح طور پر محسوس کرسکتا ہے کہ یہ دونوں چشمے ایک ہی منبع سے نکلے ہوئے ہیں۔ اسی طرح دراصل انجیل نام ہے ان الہامی خطبات اور اقوال کا جو مسیح (علیہ السلام) نے اپنی زندگی کے آخری ڈھائی تین برس میں بحیثیت نبی ارشاد فرمائے۔ وہ کلماتِ طیبات آپ کی زندگی میں لکھے اور مرتب کیے گئے تھے یا نہیں ؟ اس کے متعلق اب ہمارے پاس کوئی ذریعہ معلومات نہیں ہے۔ ممکن ہے بعض لوگوں نے انھیں نوٹ کرلیا ہو اور ممکن ہے کہ سننے والے معتقدین نے ان کو زبانی یاد کر رکھا ہو۔ بہرحال ایک مدت کے بعد جب آنجناب کی سیرت پاک پر مختلف رسالے لکھے گئے تو ان میں تاریخی بیان کے ساتھ ساتھ وہ خطبات اور ارشادات بھی جگہ جگہ حسب موقع درج کردیے گئے جو ان رسالوں کے مصنفین تک زبانی روایات اور تحریری یا دداشتوں کے ذریعے سے پہنچے تھے۔ آج متی ‘ مرقس ‘ لوقا اور یوحنا کی جن کتابوں کو اناجیل کہا جاتا ہے ‘ دراصل انجیل وہ نہیں ہیں بلکہ انجیل حضرت مسیح (علیہ السلام) کے وہ ارشادات ہیں ‘ جو ان کے اندر درج ہیں۔ ہمارے پاس ان کو پہچاننے اور مصنفینِ سیرت کے اپنے کلام سے ان کو ممیز کرنے کا اس کے سوا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ جہاں سیرت کا مصنف کہتا ہے کہ مسیح نے یہ فرمایا یا لوگوں کو یہ تعلیم دی ‘ صرف وہی مقامات اصل انجیل کے اجزاء ہیں ‘ قرآن انہی اجزاء کے مجموعے کو ” انجیل “ کہتا ہے اور انہی کی وہ تصدیق کرتا ہے۔ آج کوئی شخص ان بکھرے ہوئے اجزاء کو مرتب کر کے قرآن سے ان کا مقابلہ کر کے دیکھے تو وہ دونوں میں بہت ہی کم فرق پائے گا اور جو تھوڑا بہت فرق محسوس ہوگا ‘ وہ بھی غیر متعصبانہ غوروتامل کے بعد بآسانی حل کیا جاسکے گا۔ (ماخوذ از : تفہیم القرآن )
Top