Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 100
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تُطِیْعُوْا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ یَرُدُّوْكُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ كٰفِرِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِنْ : اگر تُطِيْعُوْا : تم کہا مانو گے فَرِيْقًا : ایک گروہ مِّنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوا الْكِتٰبَ : دی گئی کتاب يَرُدُّوْكُمْ : وہ پھیر دینگے تمہیں بَعْدَ : بعد اِيْمَانِكُمْ : تمہارے ایمان كٰفِرِيْنَ : حالت کفر
اے ایمان والو ! اگر تم کہا مانو گے اہل کتاب کے ایک گروہ کا تو وہ تمہیں تمہارے ایمان کے بعد پھر کفر کی طرف پلٹا دیں گے
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تُطِیْعُوْا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْـکِتٰبَ یَرُدُّوْکُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ کٰفِرِیْنَ ۔ (اے ایمان والو ! اگر تم کہا مانو گے اہل کتاب کے ایک گروہ کا تو وہ تمہیں تمہارے ایمان کے بعد پھر کفر کی طرف پلٹا دیں گے) (100) مسلمانوں کو اہل کتاب سے بچنے کی تاکید اہلِ کتاب کو ملامت کرنے اور حجت تمام کردینے کے بعد اب خطاب مسلمانوں سے ہو رہا ہے اور ان خطرات سے آگاہ کیا جا رہا ہے جو اہل کتاب کی طرف سے انھیں پیش آسکتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب کا مسلمانوں پر حملہ دو طرفہ تھا۔ ایک طرف تو وہ ان کی سادگی اور امی ہونے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام کے بارے میں مسلسل بدگمانی پیدا کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے تھے اور مختلف قسم کے سوالات ان کے دماغوں میں اٹھاتے رہتے تھے اور دوسری طرف وہ یہ دیکھ رہے تھے کہ اوس و خزرج کی ساری کمزوریوں کا سبب ان کی آپس کی بےاتفاقی تھی۔ عرصہ دراز سے یہود نے اوس و خزرج کو جنگ کی آگ میں جھونک رکھا تھا۔ طریقے طریقے سے وہ دونوں قبیلوں کی جنگ کے لیے حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ اس غرض کے لیے انھیں قرض بھی دیتے اور بعض دفعہ خود بھی مدد کرتے اور اسی مقصد کے لیے ان سے حلیفانہ تعلقات بھی قائم کر رکھے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جب تک یہ آپس میں لڑتے رہیں گے ہم ان کی طرف سے محفوظ رہیں گے اور یہ اپنی عدم اتفاقی کے باعث قرض لینے پر ہمیشہ مجبور ہوں گے اور اس طرح سے ہمارے دست نگر رہیں گے۔ مدینہ منورہ میں آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری کے بعد جب ان دونوں قبیلوں نے اسلام قبول کرلیا تو اسلامی اخوت ان کے تمام انتسابات پر غالب آگئی۔ اس سے ان دونوں قبیلوں میں ایک ایسی وحدت پیدا ہوئی جس نے انھیں سیسہ پلائی دیوار بنادیا۔ یہود کے لیے یہ بات نہایت پریشان کن تھی۔ اب اگر ایک طرف وہ انھیں اسلام سے بدگمان کرنے کی کوشش کرتے تھے تو دوسری طرف ان کے اس اتفاقِ و اتحاد میں دراڑیں ڈالنے کی تدبیریں سوچتے تھے۔ روح المعانی میں ابن اسحاق کی روایت سے اور ایک جماعت نے زید بن اسلم سے روایت کیا ہے کہ ایک یہودی سم اس بن قیس مسلمانوں سے بہت کینہ رکھتا تھا۔ اس نے ایک مجلس میں انصار کے دو قبیلوں اوس اور خزرج کو ایک جگہ اکٹھے بیٹھے دیکھا تو حسد سے بےچین ہوگیا اور ان میں تفریق ڈالنے کی فکر میں لگ گیا۔ آخر یہ تجویز ہوئی کہ ایک شخص سے کہا کہ ان دونوں قبیلوں میں اسلام سے پہلے جو ایک بڑی جنگ عرصہ دراز تک رہ چکی ہے اور اس کے متعلق فریقین کے فخریہ اشعار موجود ہیں، وہ اشعار ان کی مجلس میں پڑھے جائیں۔ چناچہ اشعار کا پڑھنا تھا کہ فوراً ایک آگ سی بھڑک اٹھی اور آپس میں جذبات کی آندھی چلنے لگی۔ یہاں تک کہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ تلواریں بےنیام نہ ہوجائیں۔ آنحضرت ﷺ کو خبر ہوئی تو آپ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور آپ ﷺ نے دونوں قبیلوں کے مسلمانوں کو تنبیہ کی کہ اللہ نے تمہیں اسلام کے ذریعے اتفاق و اتحاد کی دولت عطا فرمائی ہے، یہ کیسی جہالت ہے کہ تم پھر اسی اختلاف کی دلدل میں دھنس جانا چاہتے ہو۔ چناچہ جانبین کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ سمجھ گئے کہ یہ ایک سازش اور شیطانی حرکت تھی۔ چناچہ ایک دوسرے کے گلے لگ کر بہت روئے اور توبہ کی۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو تنبہ فرمایا گیا ہے کہ اگر تم نے اہل کتاب کے اس گروہ کو پوری طرح نہ پہچانا جو تمہاری دشمنی پر ادھار کھائے بیٹھا ہے اور تم ان کی باتوں میں آتے رہے اور محض اس لیے ان کی بات سنتے رہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ کی جانب سے کتاب ہدایت دی گئی تھی تو پھر یاد رکھو وہ تمہیں تمہارے دین سے برگشتہ کیے بغیر نہ چھوڑیں گے۔ تم جنھیں اہل کتاب سمجھ کر حسن ظن رکھتے ہو وہ بگاڑ کی اس انتہا کو پہنچ چکے ہیں کہ وہ تمہیں نقصان پہنچانے کے لیے کمینی سے کمینی حرکت کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ اس آیت میں قرآن کریم نے یہود کے ایک گروہ کا ذکر کیا ہے پوری یہودی قوم کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اللہ کی کتاب ہے۔ ورنہ دشمن کے بارے میں اس حد تک احتیاط انسانی جذبات سے بہت دور کی بات ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ باقی قوم یہود مسلمانوں کے بارے میں نرم گوشہ رکھتی تھی۔ یہ صحیح ہے کہ انہی میں سے کچھ لوگوں نے اسلام بھی قبول کیا تھا، لیکن ان کی تعداد بڑی محدود تھی۔ یہود کا عام مزاج اگرچہ اسلام دشمنی پر مبنی تھا، لیکن بگاڑ اور زوال کی یہ بھی ایک علامت ہے کہ عام افرادِ قوم بےحسی کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ اگر نئی روشنی کو قبول نہیں کرتے تو اٹھتے ہوئے انقلاب کا راستہ روکنا بھی ان کی بےچینی کا باعث نہیں ہوتا۔ وہ اپنے کھانے کمانے میں لگے رہتے ہیں، البتہ ان کا وہ طبقہ جو قوم کو لیڈ کرتا ہے اس کے اندر یقینا اسلام دشمنی ایک بحران کی صورت اختیار کرگئی تھی۔ وہ ہر ممکن طریقے سے اسلام کا راستہ روکنے اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی تدبیریں سوچتے رہتے تھے۔ یہاں فریق کے لفظ سے وہی گروہ مراد ہے اور وہی گروہ اس قوم کا نمائندہ بھی ہے۔
Top