Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 101
وَ كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ وَ اَنْتُمْ تُتْلٰى عَلَیْكُمْ اٰیٰتُ اللّٰهِ وَ فِیْكُمْ رَسُوْلُهٗ١ؕ وَ مَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰهِ فَقَدْ هُدِیَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۠   ۧ
وَكَيْفَ : اور کیسے تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے ہو وَاَنْتُمْ : جبکہ تم تُتْلٰى : پڑھی جاتی ہیں عَلَيْكُمْ : تم پر اٰيٰتُ : آیتیں اللّٰهِ : اللہ وَفِيْكُمْ : اور تمہارے درمیان رَسُوْلُهٗ : اس کا رسول وَمَنْ : اور جو يَّعْتَصِمْ : مضبوط پکڑے گا بِاللّٰهِ : اللہ کو فَقَدْ ھُدِيَ : تو اسے ہدایت دی گئی اِلٰى : طرف صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا راستہ
اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تم پھر کفر کرنے لگو ؟ حالانکہ تم وہ ہو کہ تم پر اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور تم میں اللہ کے رسول ﷺ موجود ہیں اور جو اللہ کو مضبوطی سے پکڑتا ہے تو ضرور پہنچایا جاتا ہے اسے سیدھی راہ پر)
وَکَیْفَ تَکْفُرُوْنَ وَاَنْـتُمْ تُتْلٰی عَلَیْـکُمْ اٰیٰتُ اللّٰہِ وَ فِیْـکُمْ رَسُوْلُـہٗ ط وَمَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰہِ فَقَدْ ہُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ۔ ع (اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تم پھر کفر کرنے لگو ؟ حالانکہ تم وہ ہو کہ تم پر اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور تم میں اللہ کے رسول ﷺ موجود ہیں اور جو اللہ کو مضبوطی سے پکڑتا ہے تو ضرور پہنچایا جاتا ہے اسے سیدھی راہ پر) (101) مسلمان خود آگاہی سے کام لیں میں اس سے پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ یہود کا حملہ دو طرفہ تھا۔ اسلام کے بارے میں وسوسہ اندازی اور اوس و خزرج میں اختلاف و انتشار پیدا کرنے کی کوشش۔ نئے نئے مسلمان ان دونوں کوششوں کا اثر قبول کر رہے تھے۔ شان نزول میں جس طرح بتایا گیا ہے کہ ایک دفعہ تو دونوں قبیلوں کے درمیان تلواریں کھنچ گئی تھیں۔ اگر حضور بروقت نہ پہنچ جاتے تو نہ جانے کیا نتائج نکلتے۔ اسی کو اس آیت کریمہ میں کفر سے تعبیر کیا گیا ہے اور مسلمانوں سے فرمایا گیا ہے کہ تم پر پوری طرح ابر کرم چھایا ہوا ہے۔ اللہ کی آیات رحمت کی بوندیں بن کر برس رہی ہیں اور رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی مینارہ نور کی طرح تمہارے درمیان موجود ہیں۔ تمہارے اختلافات کے شعلوں کو یہ ابر رحمت بجھا چکا ہے اور حق کی روشنی تمہاری جہالت کی تاریکیوں کو ختم کرچکی ہے۔ اس کے باوجود کیا یہ ممکن ہے کہ تم پھر کفر کا راستہ اختیار کرو۔ ان کی باتوں میں آجاؤ یا پھر تمہارے اتفاق و اتحاد میں دراڑیں پڑجائیں۔ اس آیت کو پڑھتے ہوئے عجیب سا احساس ہوتا ہے کہ اسلام کے ابر رحمت ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں اور یہ اللہ کی وہ دولت ہے کہ جس کسی کو نصیب ہوجاتی ہے وہ زندگی کی بھول بھلیوں سے نجات پا جاتا ہے۔ لیکن اس آیت ِکریمہ میں جس طرح اتفاق و اتحاد کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور اختلاف و انتشار کو جس طرح کفر سے تعبیر کیا گیا ہے یہ انتہائی قابل توجہ بات ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ فکری وحدت انسان کو صراط مستقیم پر ضرور چلاتی ہے، لیکن اگر اتفاق و اتحاد کے ذریعے قومی اور دینی وحدت میسر نہ آئے تو امتیں سیاسی اور ملی قوت سے محروم ہوجاتی ہیں اور یہ وہ حادثہ ہے جس کے بعد دین بھی سہارا نہیں بنتا، نہ صرف ملک ہاتھ سے نکلتے ہیں بلکہ ہر چیز قصہ پارینہ بن جاتی ہے۔ انیسویں صدی پر نگاہ ڈالیے برصغیر پاک و ہند میں ملت اسلامیہ پر جو قیامت ٹوٹی وہ صرف اس بات کا نتیجہ تھا کہ مغرب کے عیسائیوں نے مسلمان حکمرانوں کو ایک دوسرے کے خلاف اکسا کر مسلمانوں کو ایک دوسرے سے ٹکرا دیا تھا اور شرق اوسط اس لیے تباہ ہوا کہ وہاں کے فرمانروائوں نے خلافتِ عثمانیہ کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا اور اس طرح اپنے وقار کا جنازہ نکالا۔ مسلمانوں نے جب بھی اغیار پر اعتبار کر کے اپنی صفوں میں دراڑیں پیدا کیں تو انھیں ہمیشہ روح فرسا حالات سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ ایسی حقیقت ہے کہ ہماری تاریخ صدیوں سے اس پر شہادت دے رہی ہے۔ مسلمانوں کو خطرے کی نشاندہی کرتے ہوئے اس سے بچنے کی تدبیر بھی بتائی گئی ہے۔ وہ تدبیر یہ ہے کہ ہرحال میں اللہ کو مضبوطی سے تھام لو، اللہ کی ذات تو ایسی نہیں کہ جسے پکڑا اور تھاما جاسکے۔ مقصود اس سے یہ ہے کہ اللہ کی رسی یعنی اس کے دین اور اس کی کتاب کو مضبوطی سے تھامو اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ جو شخص بھی اللہ سے اپنا تعلق مضبوط کرلیتا ہے وہ دینی اخوت و محبت کو تمام انتسابات پر ترجیح دیتا ہے اور اللہ کا ہر تعلق اس کے سند اور اتھارٹی بن جاتا ہے۔ تو اللہ اسے ایک ایسے سیدھے راستے پر چلاتا ہے جس میں کہیں کھائیاں ہیں، نہ پرپیچ راستے جن میں بہک جانے کا اندیشہ ہو۔ اس اعتصام باللہ کی مزید حقیقت اگلی آیت کریمہ میں کھولی گئی۔
Top