Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 104
وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
وَلْتَكُنْ : اور چاہیے رہے مِّنْكُمْ : تم سے (میں) اُمَّةٌ : ایک جماعت يَّدْعُوْنَ : وہ بلائے اِلَى : طرف الْخَيْرِ : بھلائی وَيَاْمُرُوْنَ : اور وہ حکم دے بِالْمَعْرُوْفِ : اچھے کاموں کا وَيَنْهَوْنَ : اور وہ روکے عَنِ الْمُنْكَرِ : برائی سے وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ ھُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : کامیاب ہونے والے
اور چاہیے کہ تم میں ایک گروہ ایسا ہو جو خیر کی طرف بلائے جو معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں
وَلْـتَکُنْ مِّنْـکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۔ (اور چاہیے کہ تم میں ایک گروہ ایسا ہو جو خیر کی طرف بلائے جو معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں) (104) مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ مسلمانوں کی دینی زندگی کو ہر طرح کی خرابی سے بچانے کے لیے ایک ایسی جماعت، ایک ایسے گروہ یا ایک ایسے ادارے کا وجود عمل میں لائیں جس کے دو کام ہوں۔ (1)… دعوت الی الخیر۔ (2)… امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔ اگر تو مسلمانوں کی حکومت اسلامی حکومت ہو تو اس کا شرعی فریضہ ہے کہ اسلامی زندگی کے احیاء کے لیے ایسے ادارے کا تقرر کرے اور اگر اسلامی حکومت نہ ہو، لیکن مسلمانوں کی اپنی حکومت ہو تو پھر مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے طور پر اس ضرورت کو پورا کریں، حکومت کی سطح پر تو وہ نہیں کرسکتے، البتہ ! رفاہی اداروں یا N.G.Os کی طرح کچھ اہل علم اٹھیں اور اپنی بساط کی حد تک اس دینی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔ جن میں پہلا کام دعوت الی الخیر ہے یعنی انھیں اس کا اہتمام کرنا چاہیے کہ وہ لوگوں کو خیر کی طرف بلائیں اور خیر کے ساتھ ان کا تعلق باقی رکھنے کی کوشش کریں۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ خیر کیا ہے ؟ ابن کثیر نے نبی کریم ﷺ کا اس سلسلے میں ایک ارشاد نقل کیا ہے۔ آپ نے فرمایا : اَلْخَیْرُ ھُوَ اِتِّـبَاعُ الْقُرْاٰنِ وَسُنَّتِیْ (یعنی خیر سے مراد قرآن اور میری سنت کا اتباع ہے) اس کا مطلب یہ ہے کہ علمائے کرام اور علم دوست لوگوں کا یہ فرض ہے کہ وہ لوگوں کو ہمیشہ اس ضرورت کا احساس دلاتے رہیں کہ تم مسلمان ہو اور مسلمان وہ ہوتا ہے جو قرآن و سنت کی پیروی کرے۔ اس لیے اگر تم مسلمان رہنا چاہتے ہو تو پھر تمہیں بہرصورت قرآن و سنت کی پیروی کرنی چاہیے۔ تمہاری زندگی کا کوئی عمل بھی اس کے خلاف نہ ہو۔ قرآن اللہ کی کتاب اور سنت آنحضرت ﷺ کی تشریحات کا نام ہے۔ یہ ایک ایسا وسیع نظام زندگی ہے جس نے زندگی کے ہر مسئلے پر بحث کی ہے۔ مسلمانوں کی یہ خوش قسمتی ہے کہ انھیں بغیر رہنمائی کے نہیں چھوڑا گیا بلکہ محفوظ اور منضبط راہنمائی ہر وقت ان کی دسترس میں ہے۔ ان کی حفاظت کا اللہ نے خود ذمہ لیا ہے۔ البتہ ! مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس کے سیکھنے سکھانے کا انتظام کریں، لوگوں کو اس کی طرف بلائیں، اس کی ترغیب دیں اور کہیں بھی اس کا احساس نہ ہونے دیں کہ مسلمانوں کے پاس زندگی گزارنے کے لیے کوئی ضابطہ حیات نہیں۔ اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ دین کا وہ حصہ جس کا تعلق دین کی بنیادی باتوں سے ہے۔ مثلاً وہ عقائد جنھیں مانے بغیر آدمی مسلمان نہیں ہوتا۔ وہ احکام جن کی بجا آوری کے بغیر اسلامی زندگی وجود میں نہیں آتی اور وہ اخلاق جنھیں اختیار کیے بغیر ایک مسلمان میں اسلامی تہذیب پیدا نہیں ہوتی۔ اسی طرح وہ حقوق و فرائض جن کا تعلق انسانوں کے آپس کے معاملات سے ہے، یہ دین کا وہ بنیادی حصہ ہے جس کا جاننا ہر مسلمان پر ضروری ہے اور اس پر عمل کرنا آخرت میں سرخرو ہونے کے لیے لازمی ہے۔ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مختلف مراحل میں ان بنیادی باتوں سے ہر مسلمان کو باخبر کریں۔ ہمارے تعلیمی نظام میں پہلی جماعت سے ذہنی سطح کے مطابق ان تمام شعبوں کی ابتدائی باتوں کی تعلیم شروع ہوجانی چاہیے۔ پھر درجہ بدرجہ علمی ارتقاء کے ساتھ ساتھ اس کی حیثیت بھی بلند ہوتی جانی چاہیے۔ میٹرک تک پہنچتے پہنچتے ہر بچہ اسلام کی بنیادی تعلیمات سے بہرہ ور ہونا چاہیے کیونکہ میٹرک کی عمر تک بچہ بلوغ کی عمر کو پہنچ جاتا ہے۔ اب اس کی مکلف زندگی شروع ہوجاتی ہے۔ چناچہ اب اس کی آئندہ زندگی کا ایک ایک دن بلکہ ایک ایک لمحہ اللہ کے سامنے جوابدہی کے لیے پیش ہوگا۔ کالج یا یونیورسٹی کی تعلیم میں انہی بنیادی باتوں کی سطح اور بلند ہوجانی چاہیے۔ عقائد پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں، اس کے ازالے کے لیے ذہنوں کو تیار کیا جانا چاہیے۔ تہذیب کے بنیادی مسائل علمی حیثیت سے دل و دماغ میں اتارے جانے چاہیں اور جن مسائل کا تعلق بلوغ کے بعد شروع ہوتا ہے خاص طور پر عائلی اور عملی زندگی میں اس کی تعلیم کالج سے شروع کرنی چاہیے۔ قرآن و سنت ہمارے دین و شریعت کے دو بنیادی مآخذ ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ان کا فہم ہمارے نظام تعلیم کا حصہ بنادیا جائے۔ لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا اس وقت تک امت مسلمہ کے پڑھے لکھے لوگ مکلف ہیں کہ وہ دروس قرآن اور دروس حدیث کا اہتمام کریں اور جدید زبان میں جدید ضرورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے فہم کو آسان بنایاجائے بلکہ ایسے حلقوں کو ایک تحریک کی شکل دے کر محلے محلے اور گھر گھر پہنچا دیا جائے۔ مساجد اس کا مرکز بنیں اور جدید تعلیم یافتہ لوگ اس سے بہرہ ور ہو کر اپنے اپنے اداروں کو اس کے مراکز بنائیں۔ جب اس کی ضرورت کا احساس اور اس کی تڑپ دلوں میں اتر جائے گی تو خود بخود اس کے لیے ہر شخص نئے نئے راستے سوچے گا اور امت کی دینی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے نئی نئی راہیں تلاش کرے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ امت کی دین سے متعلق وہ ضرورتیں جن کا تعلق قانون یا تہذیب و تمدن سے ہے اور تقابلِ ادیان کی صورت میں جن چیزوں کی ہمیں ضرورت پیش آتی ہے اور معیشت اور معاشرت کی اسلامی بنیادوں کو واضح کرنے کے لیے نئے علوم سے تقابل کی ضرورت پڑتی ہے، یہ اسلام کی وہ ضرورتیں ہیں جن کا تعلق عام آدمی سے نہیں بلکہ اہل علم کے خاص دوائر اور قانون اور بعض عمرانی درس گاہوں میں اس کی ضرورت پیش آتی ہے۔ انھیں رہنمائی مہیا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے علماء تیار کیے جائیں جو ادلہ شرعیہ کی تفصیلات سے پوری طرح واقف اور ان کی نزاکتوں سے پوری طرح آگاہ ہوں۔ قرآن کریم نے جس طرح عام دینی ضرورتوں کے حوالے سے قرآن کریم کو سہل قرار دیا ہے اور ہر شخص کو اس سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دی ہے اسی طرح اس نے دوسری ضرورت کو پورا کرنے کے لیے دین میں تفقہ پیدا کرنے کا حکم دیا ہے اور ایسے لوگ تیار کرنے کا حکم دیا ہے جو مسلمانوں کی علمی ضرورتوں کو پورا کرسکیں۔ ارشاد فرمایا : فَلَوْلاَ نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمُ طَّـآئِفَۃٌ لِیَتَفَقَّہُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَہُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُوْنَ ۔ (مسلمانوں کے ہر طبقے سے ایک ایسا گروہ کیوں نہ نکلا (جو کسی تعلیمی مرکز میں رہ کر) دین کی سمجھ پیدا کرتا اور واپس جا کر اپنی قوم کو انذار کرتا تاکہ لوگ اللہ کی نافرمانی سے بچتے) اس آیت کریمہ میں ایک بڑی تعداد میں ایسے لوگوں کو تیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو دین میں تفقہ پیدا کریں۔ دین میں تفقہ قرآن و سنت کے فہم میں زندگیاں کھپا کر جو گہری نظرپیدا ہوتی ہے اسے کہتے ہیں۔ اس طرح سے وہ ضرورت پوری کی جاسکتی ہے جس کا تعلق مسلمانوں میں قرآن و سنت سے وابستگی اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کا جذبہ پیدا کرنے سے ہے اور ساتھ ہی ساتھ اسلام کی علمی ضرورتوں کو بھی پورا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ دوسری ضرورت یہ ہے کہ امت میں شریعت کی پابندی کو کمزور نہ ہونے دیا جائے اور مسلمانوں کے اعمال واطوار کو ہر ممکن طریقے سے شریعت کی حدود میں رکھنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے لیے اس آیت کریمہ میں حکم دیا گیا ہے کہ مسلمان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں۔ معروف ہر وہ چیز ہے جو شریعت کی نگاہ میں نیکی ہے اور منکر ہر وہ چیز ہے جو شریعت کی نگاہ میں برائی ہے۔ نیکی کو فروغ دینا اور برائی سے روکنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ٹھہرایا گیا ہے۔ قرآن کریم میں مختلف مواقع پر اس کا حکم دیا گیا ہے اور آنحضرت ﷺ نے مختلف طریقوں سے اس کی تاکید فرمائی ہے۔ ترمذی اور ابن ماجہ میں آنحضرت ﷺ کا ایک ارشاد نقل کیا گیا ہے : وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بَیَدِہٖ لَتَاْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلَتَنْہَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ اَوْلَـیُوْشَکُنَّ اللّٰہَ اَنْ یَّـبْـعَثَ عَلَیْـکُمْ عِقَابًا مِّنْ عِنْدِہٖ ثُمَّ لَتَدَعُنَّـہٗ فَلاَ یَسْتَجِیْبُ لَـکُمْ (قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ گنہگاروں کے ساتھ تم سب پر بھی اپنا عذاب بھیج دے۔ اس وقت تم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو گے تو قبول نہ ہوگی) ایک اور حدیث میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا : مَنْ رَاَی مِنْـکُمْ مُنْـکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فِبِلِسَانِہٖ وَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ (تم میں سے جو شخص کوئی گناہ ہوتا ہوا دیکھے تو اس کو چاہیے کہ اپنے ہاتھ اور قوت سے اس کو روک دے اور اگر یہ نہ کرسکے تو زبان سے روکے اور یہ بھی نہ کرسکے تو کم از کم دل میں اس فعل کو برا سمجھے اور یہ سب سے ادنیٰ درجہ کا ایمان ہے) ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہر شخص پر لازم ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ تمام احکامِ شرعیہ کے لازم ہونے کے لیے استطاعت اور قدرت ضروری ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں بھی یہی بنیادی شرط ہے۔ ایک حدیث میں آپ نے دیکھا ہے کہ آپ نے استطاعت پر ہی اس کا دارومدار رکھا ہے۔ دین چونکہ علم ہے اس لیے اس کی سب سے پہلی استطاعت علمی استطاعت ہے۔ جو شخص امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہے اس کے لیے ضروری ہے کہ اسے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ معروف کیا ہے اور منکر کیا ہے ؟ جس آدمی کو یہ بنیادی علم حاصل نہ ہو اس آدمی سے اندیشہ ہے کہ وہ معروف کو منکر اور منکر کو معروف سمجھ بیٹھے۔ ایسے شخص پر یہ فریضہ عائد نہیں ہوتا بلکہ ایسے لوگوں کی جہالت سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ جس سے دین کے بارے میں بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ امر بالمعروف کی استطاعت جس طرح علم سے متعلق ہے اسی طرح حالات سے بھی متعلق ہے۔ حالات اگر کسی منکر کو روکنے کی اجازت نہیں دیتے بلکہ اس کے نتیجے میں اگر کوئی ناقابل برداشت ابتلاء پیدا ہوسکتا ہے تو پھر اس پر عمل کرنے میں حکمت کی ضرورت ہے اور یا ایسے وقت کا انتظار کرنا چاہیے جب حالات میں تبدیلی آجائے۔ ہاں ! اگر معاملہ ایسا شدید ہوجائے کہ اگر منکرات پہ ٹوکا نہ گیا اور معروف کو زندہ رکھنے کی کوشش نہ کی گئی تو دین کو ناقابلِ بیان نقصان پہنچے گا اور لوگوں پر اس پر بہت برے اثرات مرتب ہوں گے تو پھر خطرات سے کھیل کر بھی یہ فرض انجام دینا چاہیے۔ یہی وہ عزیمت ہے جس کا اللہ کے یہاں بہت اجر ہے۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ ایک تو سید الشہداء حضرت حمزہ ( رض) ہیں دوسرے سید الشہداء وہ ہوں گے جو جابر اور ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے کی پاداش میں شہید کردیے جائیں گے۔ یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ ایسی صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کسی منکر کا تعلق اجتماعی، آئینی، سیاسی یا حکومتی معاملے سے ہو۔ رہے وہ عام منکرات جو گھروں میں مختلف تقریبات میں پیدا ہوتے ہیں یا فرائض کی پابندی نہ کرنے کی صورت میں جنم لیتے ہیں یا شرم و حیا کے بند ڈھیلے پڑنے سے نئی نسل میں پیدا ہوتے ہیں، ایسے منکرات کو روکنا تو ہر اس شخص کی ذمہ داری ہے جو کسی بھی ادارے کی سربراہی پر فائز ہے۔ گھر کا سربراہ یا معاشرے کا سربرآوردہ آدمی تھوڑی سی ہمت سے بہت سے منکرات کو روک سکتا ہے اور برادریوں میں عام لوگ تھوڑی سی رائے عامہ کو منظم کر کے بہت سی برائیوں کا راستہ روک سکتے ہیں۔ ایسے مواقع پر جب کہ کسی حد تک عزیمت کا ثبوت دیتے ہوئے یا فکر مندی کی صورت میں بعض منکرات روکے جاسکتے ہوں اور پھر بھی ان کو روکنے کی کوشش نہ کی جائے اور محض برائی کا اظہار کر کے وقت ٹال دیا جائے تو یہ اضعف الایمان ہے، جس کا اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن اگر معاملے کی صورت یہ ہو کہ سب چھوٹے بڑے بعض برائیوں میں اس لیے شریک ہوجائیں کہ وہ خوشیوں کے اظہار کا ذریعہ ہیں، چاہے اس میں شریعت پر کیسی ہی قیامت گزر جائے اور مسلمانوں کی تہذیب چاہے کتنی مجروح ہوجائے تو ایسی صورت حال میں نہی عن المنکر کی بجائے امر بالمعروف کی فضا پیدا کرنی چاہیے۔ اس سے میری مراد یہ ہے کہ ترغیب اور آگاہی کے وسائل سے کام لے کر ذہنوں کو پہلے ہموار کرنا چاہیے اور اس کے بعد امربالمعروف اور نہی عن المنکر شاید دونوں کا موقع پیدا ہو سکے اور یہی وہ بات ہے جس کا یہاں لپیٹ کر حکم دیا جا رہا ہے۔ یہ وہ معاشرہ ہے جو سیرت و کردار کی تعمیر کے لیے اعتصام باللہ سے کام لیتا ہے اور اس کی وجہ سے اس کی فکری اور عملی بنیادیں راسخ ہوجاتی ہیں اور پھر جب کہیں اس میں دراڑیں پڑنے کا اندیشہ ہوتا ہے تو وہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر سے ان دراڑوں کو کھلنے سے پہلے بند کردیتا ہے۔ اس معاشرے کا ایک ایک فرد زندہ احساس اور کھلی آنکھوں سے جیتا ہے۔ وہ جس طرح نقصانات کے باقی مظاہر پر نظر رکھتے ہیں اور اس کے ایک ایک سوتے کو رواں ہونے سے پہلے خشک کردیتے ہیں اسی طرح وہ عقائد، اخلاق اور عمل کی ہر خرابی کو ایسی ہی فکر مندی کے ساتھ بچانے اور برے اثرات سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہیں۔ دنیا میں ان کی کامیابی ان کے گھروں کی آبادی، صحت مند خوراک اور بےمیل تعلقات کی صورت میں نظر آتی ہے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ جو اجر وثواب دیں گے آج صرف ان کا تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔
Top