Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 104
وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
وَلْتَكُنْ
: اور چاہیے رہے
مِّنْكُمْ
: تم سے (میں)
اُمَّةٌ
: ایک جماعت
يَّدْعُوْنَ
: وہ بلائے
اِلَى
: طرف
الْخَيْرِ
: بھلائی
وَيَاْمُرُوْنَ
: اور وہ حکم دے
بِالْمَعْرُوْفِ
: اچھے کاموں کا
وَيَنْهَوْنَ
: اور وہ روکے
عَنِ الْمُنْكَرِ
: برائی سے
وَاُولٰٓئِكَ
: اور یہی لوگ
ھُمُ
: وہ
الْمُفْلِحُوْنَ
: کامیاب ہونے والے
اور چاہیے کہ تم میں ایک گروہ ایسا ہو جو خیر کی طرف بلائے جو معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں
وَلْـتَکُنْ مِّنْـکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۔ (اور چاہیے کہ تم میں ایک گروہ ایسا ہو جو خیر کی طرف بلائے جو معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں) (104) مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ مسلمانوں کی دینی زندگی کو ہر طرح کی خرابی سے بچانے کے لیے ایک ایسی جماعت، ایک ایسے گروہ یا ایک ایسے ادارے کا وجود عمل میں لائیں جس کے دو کام ہوں۔ (1)… دعوت الی الخیر۔ (2)… امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔ اگر تو مسلمانوں کی حکومت اسلامی حکومت ہو تو اس کا شرعی فریضہ ہے کہ اسلامی زندگی کے احیاء کے لیے ایسے ادارے کا تقرر کرے اور اگر اسلامی حکومت نہ ہو، لیکن مسلمانوں کی اپنی حکومت ہو تو پھر مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے طور پر اس ضرورت کو پورا کریں، حکومت کی سطح پر تو وہ نہیں کرسکتے، البتہ ! رفاہی اداروں یا N.G.Os کی طرح کچھ اہل علم اٹھیں اور اپنی بساط کی حد تک اس دینی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔ جن میں پہلا کام دعوت الی الخیر ہے یعنی انھیں اس کا اہتمام کرنا چاہیے کہ وہ لوگوں کو خیر کی طرف بلائیں اور خیر کے ساتھ ان کا تعلق باقی رکھنے کی کوشش کریں۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ خیر کیا ہے ؟ ابن کثیر نے نبی کریم ﷺ کا اس سلسلے میں ایک ارشاد نقل کیا ہے۔ آپ نے فرمایا : اَلْخَیْرُ ھُوَ اِتِّـبَاعُ الْقُرْاٰنِ وَسُنَّتِیْ (یعنی خیر سے مراد قرآن اور میری سنت کا اتباع ہے) اس کا مطلب یہ ہے کہ علمائے کرام اور علم دوست لوگوں کا یہ فرض ہے کہ وہ لوگوں کو ہمیشہ اس ضرورت کا احساس دلاتے رہیں کہ تم مسلمان ہو اور مسلمان وہ ہوتا ہے جو قرآن و سنت کی پیروی کرے۔ اس لیے اگر تم مسلمان رہنا چاہتے ہو تو پھر تمہیں بہرصورت قرآن و سنت کی پیروی کرنی چاہیے۔ تمہاری زندگی کا کوئی عمل بھی اس کے خلاف نہ ہو۔ قرآن اللہ کی کتاب اور سنت آنحضرت ﷺ کی تشریحات کا نام ہے۔ یہ ایک ایسا وسیع نظام زندگی ہے جس نے زندگی کے ہر مسئلے پر بحث کی ہے۔ مسلمانوں کی یہ خوش قسمتی ہے کہ انھیں بغیر رہنمائی کے نہیں چھوڑا گیا بلکہ محفوظ اور منضبط راہنمائی ہر وقت ان کی دسترس میں ہے۔ ان کی حفاظت کا اللہ نے خود ذمہ لیا ہے۔ البتہ ! مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس کے سیکھنے سکھانے کا انتظام کریں، لوگوں کو اس کی طرف بلائیں، اس کی ترغیب دیں اور کہیں بھی اس کا احساس نہ ہونے دیں کہ مسلمانوں کے پاس زندگی گزارنے کے لیے کوئی ضابطہ حیات نہیں۔ اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ دین کا وہ حصہ جس کا تعلق دین کی بنیادی باتوں سے ہے۔ مثلاً وہ عقائد جنھیں مانے بغیر آدمی مسلمان نہیں ہوتا۔ وہ احکام جن کی بجا آوری کے بغیر اسلامی زندگی وجود میں نہیں آتی اور وہ اخلاق جنھیں اختیار کیے بغیر ایک مسلمان میں اسلامی تہذیب پیدا نہیں ہوتی۔ اسی طرح وہ حقوق و فرائض جن کا تعلق انسانوں کے آپس کے معاملات سے ہے، یہ دین کا وہ بنیادی حصہ ہے جس کا جاننا ہر مسلمان پر ضروری ہے اور اس پر عمل کرنا آخرت میں سرخرو ہونے کے لیے لازمی ہے۔ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مختلف مراحل میں ان بنیادی باتوں سے ہر مسلمان کو باخبر کریں۔ ہمارے تعلیمی نظام میں پہلی جماعت سے ذہنی سطح کے مطابق ان تمام شعبوں کی ابتدائی باتوں کی تعلیم شروع ہوجانی چاہیے۔ پھر درجہ بدرجہ علمی ارتقاء کے ساتھ ساتھ اس کی حیثیت بھی بلند ہوتی جانی چاہیے۔ میٹرک تک پہنچتے پہنچتے ہر بچہ اسلام کی بنیادی تعلیمات سے بہرہ ور ہونا چاہیے کیونکہ میٹرک کی عمر تک بچہ بلوغ کی عمر کو پہنچ جاتا ہے۔ اب اس کی مکلف زندگی شروع ہوجاتی ہے۔ چناچہ اب اس کی آئندہ زندگی کا ایک ایک دن بلکہ ایک ایک لمحہ اللہ کے سامنے جوابدہی کے لیے پیش ہوگا۔ کالج یا یونیورسٹی کی تعلیم میں انہی بنیادی باتوں کی سطح اور بلند ہوجانی چاہیے۔ عقائد پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں، اس کے ازالے کے لیے ذہنوں کو تیار کیا جانا چاہیے۔ تہذیب کے بنیادی مسائل علمی حیثیت سے دل و دماغ میں اتارے جانے چاہیں اور جن مسائل کا تعلق بلوغ کے بعد شروع ہوتا ہے خاص طور پر عائلی اور عملی زندگی میں اس کی تعلیم کالج سے شروع کرنی چاہیے۔ قرآن و سنت ہمارے دین و شریعت کے دو بنیادی مآخذ ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ان کا فہم ہمارے نظام تعلیم کا حصہ بنادیا جائے۔ لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا اس وقت تک امت مسلمہ کے پڑھے لکھے لوگ مکلف ہیں کہ وہ دروس قرآن اور دروس حدیث کا اہتمام کریں اور جدید زبان میں جدید ضرورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے فہم کو آسان بنایاجائے بلکہ ایسے حلقوں کو ایک تحریک کی شکل دے کر محلے محلے اور گھر گھر پہنچا دیا جائے۔ مساجد اس کا مرکز بنیں اور جدید تعلیم یافتہ لوگ اس سے بہرہ ور ہو کر اپنے اپنے اداروں کو اس کے مراکز بنائیں۔ جب اس کی ضرورت کا احساس اور اس کی تڑپ دلوں میں اتر جائے گی تو خود بخود اس کے لیے ہر شخص نئے نئے راستے سوچے گا اور امت کی دینی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے نئی نئی راہیں تلاش کرے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ امت کی دین سے متعلق وہ ضرورتیں جن کا تعلق قانون یا تہذیب و تمدن سے ہے اور تقابلِ ادیان کی صورت میں جن چیزوں کی ہمیں ضرورت پیش آتی ہے اور معیشت اور معاشرت کی اسلامی بنیادوں کو واضح کرنے کے لیے نئے علوم سے تقابل کی ضرورت پڑتی ہے، یہ اسلام کی وہ ضرورتیں ہیں جن کا تعلق عام آدمی سے نہیں بلکہ اہل علم کے خاص دوائر اور قانون اور بعض عمرانی درس گاہوں میں اس کی ضرورت پیش آتی ہے۔ انھیں رہنمائی مہیا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے علماء تیار کیے جائیں جو ادلہ شرعیہ کی تفصیلات سے پوری طرح واقف اور ان کی نزاکتوں سے پوری طرح آگاہ ہوں۔ قرآن کریم نے جس طرح عام دینی ضرورتوں کے حوالے سے قرآن کریم کو سہل قرار دیا ہے اور ہر شخص کو اس سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دی ہے اسی طرح اس نے دوسری ضرورت کو پورا کرنے کے لیے دین میں تفقہ پیدا کرنے کا حکم دیا ہے اور ایسے لوگ تیار کرنے کا حکم دیا ہے جو مسلمانوں کی علمی ضرورتوں کو پورا کرسکیں۔ ارشاد فرمایا : فَلَوْلاَ نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمُ طَّـآئِفَۃٌ لِیَتَفَقَّہُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَہُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُوْنَ ۔ (مسلمانوں کے ہر طبقے سے ایک ایسا گروہ کیوں نہ نکلا (جو کسی تعلیمی مرکز میں رہ کر) دین کی سمجھ پیدا کرتا اور واپس جا کر اپنی قوم کو انذار کرتا تاکہ لوگ اللہ کی نافرمانی سے بچتے) اس آیت کریمہ میں ایک بڑی تعداد میں ایسے لوگوں کو تیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو دین میں تفقہ پیدا کریں۔ دین میں تفقہ قرآن و سنت کے فہم میں زندگیاں کھپا کر جو گہری نظرپیدا ہوتی ہے اسے کہتے ہیں۔ اس طرح سے وہ ضرورت پوری کی جاسکتی ہے جس کا تعلق مسلمانوں میں قرآن و سنت سے وابستگی اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کا جذبہ پیدا کرنے سے ہے اور ساتھ ہی ساتھ اسلام کی علمی ضرورتوں کو بھی پورا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ دوسری ضرورت یہ ہے کہ امت میں شریعت کی پابندی کو کمزور نہ ہونے دیا جائے اور مسلمانوں کے اعمال واطوار کو ہر ممکن طریقے سے شریعت کی حدود میں رکھنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے لیے اس آیت کریمہ میں حکم دیا گیا ہے کہ مسلمان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں۔ معروف ہر وہ چیز ہے جو شریعت کی نگاہ میں نیکی ہے اور منکر ہر وہ چیز ہے جو شریعت کی نگاہ میں برائی ہے۔ نیکی کو فروغ دینا اور برائی سے روکنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ٹھہرایا گیا ہے۔ قرآن کریم میں مختلف مواقع پر اس کا حکم دیا گیا ہے اور آنحضرت ﷺ نے مختلف طریقوں سے اس کی تاکید فرمائی ہے۔ ترمذی اور ابن ماجہ میں آنحضرت ﷺ کا ایک ارشاد نقل کیا گیا ہے : وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بَیَدِہٖ لَتَاْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلَتَنْہَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ اَوْلَـیُوْشَکُنَّ اللّٰہَ اَنْ یَّـبْـعَثَ عَلَیْـکُمْ عِقَابًا مِّنْ عِنْدِہٖ ثُمَّ لَتَدَعُنَّـہٗ فَلاَ یَسْتَجِیْبُ لَـکُمْ (قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ گنہگاروں کے ساتھ تم سب پر بھی اپنا عذاب بھیج دے۔ اس وقت تم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو گے تو قبول نہ ہوگی) ایک اور حدیث میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا : مَنْ رَاَی مِنْـکُمْ مُنْـکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فِبِلِسَانِہٖ وَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ (تم میں سے جو شخص کوئی گناہ ہوتا ہوا دیکھے تو اس کو چاہیے کہ اپنے ہاتھ اور قوت سے اس کو روک دے اور اگر یہ نہ کرسکے تو زبان سے روکے اور یہ بھی نہ کرسکے تو کم از کم دل میں اس فعل کو برا سمجھے اور یہ سب سے ادنیٰ درجہ کا ایمان ہے) ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہر شخص پر لازم ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ تمام احکامِ شرعیہ کے لازم ہونے کے لیے استطاعت اور قدرت ضروری ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں بھی یہی بنیادی شرط ہے۔ ایک حدیث میں آپ نے دیکھا ہے کہ آپ نے استطاعت پر ہی اس کا دارومدار رکھا ہے۔ دین چونکہ علم ہے اس لیے اس کی سب سے پہلی استطاعت علمی استطاعت ہے۔ جو شخص امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہے اس کے لیے ضروری ہے کہ اسے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ معروف کیا ہے اور منکر کیا ہے ؟ جس آدمی کو یہ بنیادی علم حاصل نہ ہو اس آدمی سے اندیشہ ہے کہ وہ معروف کو منکر اور منکر کو معروف سمجھ بیٹھے۔ ایسے شخص پر یہ فریضہ عائد نہیں ہوتا بلکہ ایسے لوگوں کی جہالت سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ جس سے دین کے بارے میں بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ امر بالمعروف کی استطاعت جس طرح علم سے متعلق ہے اسی طرح حالات سے بھی متعلق ہے۔ حالات اگر کسی منکر کو روکنے کی اجازت نہیں دیتے بلکہ اس کے نتیجے میں اگر کوئی ناقابل برداشت ابتلاء پیدا ہوسکتا ہے تو پھر اس پر عمل کرنے میں حکمت کی ضرورت ہے اور یا ایسے وقت کا انتظار کرنا چاہیے جب حالات میں تبدیلی آجائے۔ ہاں ! اگر معاملہ ایسا شدید ہوجائے کہ اگر منکرات پہ ٹوکا نہ گیا اور معروف کو زندہ رکھنے کی کوشش نہ کی گئی تو دین کو ناقابلِ بیان نقصان پہنچے گا اور لوگوں پر اس پر بہت برے اثرات مرتب ہوں گے تو پھر خطرات سے کھیل کر بھی یہ فرض انجام دینا چاہیے۔ یہی وہ عزیمت ہے جس کا اللہ کے یہاں بہت اجر ہے۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ ایک تو سید الشہداء حضرت حمزہ ( رض) ہیں دوسرے سید الشہداء وہ ہوں گے جو جابر اور ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے کی پاداش میں شہید کردیے جائیں گے۔ یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ ایسی صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کسی منکر کا تعلق اجتماعی، آئینی، سیاسی یا حکومتی معاملے سے ہو۔ رہے وہ عام منکرات جو گھروں میں مختلف تقریبات میں پیدا ہوتے ہیں یا فرائض کی پابندی نہ کرنے کی صورت میں جنم لیتے ہیں یا شرم و حیا کے بند ڈھیلے پڑنے سے نئی نسل میں پیدا ہوتے ہیں، ایسے منکرات کو روکنا تو ہر اس شخص کی ذمہ داری ہے جو کسی بھی ادارے کی سربراہی پر فائز ہے۔ گھر کا سربراہ یا معاشرے کا سربرآوردہ آدمی تھوڑی سی ہمت سے بہت سے منکرات کو روک سکتا ہے اور برادریوں میں عام لوگ تھوڑی سی رائے عامہ کو منظم کر کے بہت سی برائیوں کا راستہ روک سکتے ہیں۔ ایسے مواقع پر جب کہ کسی حد تک عزیمت کا ثبوت دیتے ہوئے یا فکر مندی کی صورت میں بعض منکرات روکے جاسکتے ہوں اور پھر بھی ان کو روکنے کی کوشش نہ کی جائے اور محض برائی کا اظہار کر کے وقت ٹال دیا جائے تو یہ اضعف الایمان ہے، جس کا اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن اگر معاملے کی صورت یہ ہو کہ سب چھوٹے بڑے بعض برائیوں میں اس لیے شریک ہوجائیں کہ وہ خوشیوں کے اظہار کا ذریعہ ہیں، چاہے اس میں شریعت پر کیسی ہی قیامت گزر جائے اور مسلمانوں کی تہذیب چاہے کتنی مجروح ہوجائے تو ایسی صورت حال میں نہی عن المنکر کی بجائے امر بالمعروف کی فضا پیدا کرنی چاہیے۔ اس سے میری مراد یہ ہے کہ ترغیب اور آگاہی کے وسائل سے کام لے کر ذہنوں کو پہلے ہموار کرنا چاہیے اور اس کے بعد امربالمعروف اور نہی عن المنکر شاید دونوں کا موقع پیدا ہو سکے اور یہی وہ بات ہے جس کا یہاں لپیٹ کر حکم دیا جا رہا ہے۔ یہ وہ معاشرہ ہے جو سیرت و کردار کی تعمیر کے لیے اعتصام باللہ سے کام لیتا ہے اور اس کی وجہ سے اس کی فکری اور عملی بنیادیں راسخ ہوجاتی ہیں اور پھر جب کہیں اس میں دراڑیں پڑنے کا اندیشہ ہوتا ہے تو وہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر سے ان دراڑوں کو کھلنے سے پہلے بند کردیتا ہے۔ اس معاشرے کا ایک ایک فرد زندہ احساس اور کھلی آنکھوں سے جیتا ہے۔ وہ جس طرح نقصانات کے باقی مظاہر پر نظر رکھتے ہیں اور اس کے ایک ایک سوتے کو رواں ہونے سے پہلے خشک کردیتے ہیں اسی طرح وہ عقائد، اخلاق اور عمل کی ہر خرابی کو ایسی ہی فکر مندی کے ساتھ بچانے اور برے اثرات سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہیں۔ دنیا میں ان کی کامیابی ان کے گھروں کی آبادی، صحت مند خوراک اور بےمیل تعلقات کی صورت میں نظر آتی ہے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ جو اجر وثواب دیں گے آج صرف ان کا تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔
Top