Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 105
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْبَیِّنٰتُ١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ
وَلَا تَكُوْنُوْا : اور نہ ہوجاؤ كَالَّذِيْنَ : ان کی طرح جو تَفَرَّقُوْا : متفرق ہوگئے وَاخْتَلَفُوْا : اور باہم اختلاف کرنے لگے مِنْ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : کہ جَآءَھُمُ : ان کے پاس آگئے الْبَيِّنٰتُ : واضح حکم وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ لَھُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب عَظِيْم : بڑا
اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائو جو پراگندہ ہوگئے اور جنہوں نے اختلاف کیا بعد اس کے کہ ان کے پاس واضح ہدایات آچکی تھیں اور یہی لوگ ہیں جن کے لیے بڑا عذاب ہے
وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْ م بَعْدِ مَا جَـآئَ ہُمُ الْـبَـیِّـنٰتُ ط وَاُولٰٓئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔ لا یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْہٌ ج فَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْہُہُمْ قف اَکَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُـنْـتُمْ تَکْفُرُوْنَ ۔ وَاَمَّا الَّذِیْنَ ابْیَضَّتْ وُجُوْہُہُمْ فَفِیْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ ط ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ ۔ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو پراگندہ ہوگئے اور جنہوں نے اختلاف کیا بعد اس کے کہ ان کے پاس واضح ہدایات آچکی تھیں اور یہی لوگ ہیں جن کے لیے بڑا عذاب ہے۔ جس دن کچھ چہرے روشن ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ ہوں گے تو جن کے چہرے سیاہ ہوں گے ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا تم نے اپنے ایمان کے بعد کفر کیا ہے تو اب چکھو عذاب اپنے کفر کی پاداش میں۔ اور جن کے چہرے روشن ہوں گے تو وہ اللہ کی رحمت کے سایہ میں ہوں گے، وہ اسی میں ہمیشہ رہیں گے) (105 تا 107) مسلمانوں کو آگاہی گزشتہ آیات کریمہ میں مسلمانوں کو اہل کتاب کی وسوسہ اندازیوں اور ان کی سازشوں سے بچنے کے لیے جو ہدایات دی گئیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر مسلمان صراط مستقیم پر باقی رہنا چاہتے ہیں اور ان کا پختہ ارادہ ہے کہ وہ ایمان لانے کے بعد جو ایک نیا راستہ اختیار کرچکے ہیں زندگی بھر نہایت اخلاص کے ساتھ اسی پر چلتے رہیں۔ تو اس کے لیے لازمی شرط اعتصام باللہ ہے یعنی اللہ کے ساتھ ایک ایسا مضبوط تعلق جو کبھی ٹوٹنے نہ پائے۔ اس کے بعد اعتصام باللہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اعتصام باللہ سے مراد اعتصام بحبل اللہ ہے یعنی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا اور مزید تسہیل کرتے ہوئے فرمایا کہ حبل اللہ سے مراد قرآن کریم ہے۔ یہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن کریم میں شریعت کے بنیادی اصول، آئینِ اسلامی کی بنیادی دفعات اور حکمت شریعت کی ہدایات لیکن انسانی زندگی کی خصوصیات کا ذکر اجمال کے ساتھ فرمایا گیا ہے۔ ان میں سے ایک ایک بات کی وضاحت ایک ایک ابہام کی شرح اور ایک ایک اجمال کی تفصیل اور ایک ایک قانون کا انطباق اور قانون کی اجتماعی مصلحتوں کو بروئے کار لانے کے بنیادی ذرائع، یہ وہ تمام حقائق ہیں جنھیں آنحضرت ﷺ پر چھوڑا گیا ہے چناچہ یہی وہ حقائق ہیں جن کے مجموعے کو ہم حدیث اور سنت رسول سے تعبیر کرتے ہیں۔ قرآن اور سنت کا باہمی رشتہ لازم و ملزوم سے بھی کچھ بڑھ کر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کہ حبل اللہ سے مراد صرف قرآن کریم نہیں بلکہ قرآن و سنت ہے۔ اعتصام باللہ سے مراد یہ ہے کہ قرآن و سنت کو مضبوطی سے تھام لو۔ لیکن آیت کریمہ میں جمیعًاکا لفظ بھی موجود ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ یوں تو قرآن و سنت سے وابستگی اور اس کا اتباع ہر مومن مرد اور ہر مومن عورت پر ضروری ہے۔ لیکن وہ چیز جو امت اسلامیہ کی بقا کے لیے ضروری ہے اور جس کی وجہ سے امت مسلمہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مضبوط ہوجاتی ہے وہ قرآن و سنت سے انفرادی وابستگی نہیں بلکہ اجتماعی وابستگی ہے کیونکہ انفرادی وابستگی کی حدود گھروں تک محدود رہتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اسے بندے اور خدا کے درمیان پرائیویٹ تعلق کا نام دے دیا جاتا ہے جبکہ اسلام اس تصور پر ہی لعنت بھیجتا ہے۔ جس طرح ایک ایک فرد قرآن و سنت کی اتباع کے ساتھ منسلک ہے اسی طرح امت مسلمہ کے تمام ادارے بھی قرآن و سنت کے اتباع کے پابند ہیں۔ جس طرح گھروں میں قرآن و سنت کا اتباع ہونا چاہیے اسی طرح گھروں سے باہر معاشرتی زندگی میں، معاشی زندگی میں، سیاسی طور اطوار میں، عدالتوں کے چیمبرز میں، حکومت کے ایوانوں میں اور پارلیمنٹ کے ہائوسز میں بھی قرآن و سنت ہی کی حاکمیت نظر آنی چاہیے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کے نتیجے میں امت ایک اکائی کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ پھر جس طرح قرآن و سنت ایک فرد کی فکر اور عمل بن جاتا ہے اسی طرح پوری ریاست کی ایک ایک قابل ذکر جگہ قرآن و سنت کی روشنی سے درخشاں دکھائی دیتی ہے۔ جس طرح ایک مزدور اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی پابندی محسوس کرتا ہے اسی طرح فوجوں کا کمانڈر اور ملک کا حکمران بھی ان احکام میں جکڑا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ پوری امت کی نہج اور منزل ایک ہوجاتی ہے۔ امت کا ایک ایک ادارہ ایک ہی سوچ کے تحت پروان چڑھتا ہے اور ایک ہی جذبہ عمل سے جلا پاتا ہے۔ ایسی امت دھرتی پر جس طرح اللہ کی رحمت ہوتی ہے اسی طرح شیطانی قوتوں کے لیے ناقابلِ مزاحمت طوفان ہوتی ہے۔ اس میں کمزوری کے آثار اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب اس کی فکری راہنمائی میں دراڑیں پڑنے لگتی ہیں۔ امت کی اجتماعی زندگی ایک دوسرے سے بیگانہ ہونے لگتی ہے اور رفتہ رفتہ قوم مختلف فرقوں میں بٹ جاتی ہے۔ اسی خطرے کی آگاہی کے لیے اس آیت کریمہ میں سب سے پہلے حکم دیا گیا کہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو آپس میں فرقوں کی صورت میں منتشر اور پراگندہ ہوگئے۔ وہ لکڑیوں کے گٹھے کی طرح ایک دوسرے سے بندھے ہونے کے باعث مضبوطی کی علامت تھے۔ لیکن جب ان کی گرہ کھل گئی اور وہ انتشار کا شکار ہوگئے تو ان کی مضبوطی کا راز ان سے الگ ہوگیا۔ اب وہ کمزور لکڑیوں کی شکل میں ناقابلِ ذکر ہو کر رہ گئے۔ بنی اسرائیل کی پوری تاریخ اس حقیقت کی شاہد ہے کہ وہ قوم جس نے کبھی حضرت سلیمان (علیہ السلام) جیسا جلیل القدر پیغمبر اور پرہیبت حکمران پیدا کیا، لیکن ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ملک تقسیم ہوگیا، حکومت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے اور پھر یہ انتشار ایسا بڑھا کہ دوبارہ ان کو یکجا ہونے کا کہیں موقع نہ ملا۔ تفرقہ اور اختلاف آیتِ کریمہ میں تَفَرَّقُوْا اور اخْتَلَفُوْادو لفظ ذکر فرمائے گئے ہیں۔ حقیقت تو اللہ جانتا ہے لیکن بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دو الگ الگ باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ایک تو یہ کہ منصوص احکام میں الگ الگ راستے نکالنے کی کوشش نہ کرنا کیونکہ انسانوں کا وہ گروہ جس کی راہنمائی کے سرچشمے متحد ہوں وہ ایک جماعت یا ایک فرقہ کہلاتا ہے۔ اب اگر اسی جماعت میں راہنمائی کے سرچشمے ایک سے زیادہ ہوجائیں اور قانون کے مآخذ مختلف ہوجائیں تو یہیں سے تفرقے کو راہ ملتی ہے۔ جب تک امت میں اس بات پر مکمل اتفاق پایا جاتا ہے کہ ادلہ شرعیہ چار ہیں : قرآن، سنت، اجماع اور قیاس۔ ان میں بھی اصل الاصول قرآن و سنت ہیں تو پھر امت کے فرقوں میں تقسیم ہونے کا خطرہ پیدا نہیں ہوتا۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ کسی اجمال کی تفصیل اور کسی ابہام کی تشریح میں دو رائے ہوجائیں اور کہیں تعبیر کا اختلاف ہوجائے یا ایسے مسائل جن میں قرآن و سنت نے واضح احکام نہیں دیئے البتہ اس کے نظائر کی موجودگی میں اجتہاد اور استنباط کیا جاسکتا ہے تو ایسے مسائل میں آراء کا مختلف ہوجانا چنداں بعید نہیں۔ اگر نیت میں فساد شامل نہ ہو اور اللہ سے ڈر کر ان تمام معاملات میں فیصلے کیے جائیں تو اختلاف کے ہوتے ہوئے بھی اتفاق کے فوائد باقی رہتے ہیں اور یہی وہ اختلاف ہے جسے فروعی اختلاف کہا جاتا ہے اور جسے برداشت کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ایسے ہی امور ہیں جن میں فقہ کے آئمہ اور مجتہدین نے آپس میں اختلاف کیا، لیکن کبھی کسی نے ایسے اختلاف پر دوسرے کی نہ تکفیر کی نہ تنکیر۔ ہر مجتہد نے اپنی رائے کو یہ کہہ کر پیش کیا کہ میرے نزدیک یہ صحیح ہے لیکن اس میں خطا کا احتمال ہے اور دوسرے مجتہد کی رائے میرے نزدیک غلط ہے لیکن محتمل الصواب ہے۔ ایسا منصفانہ طرز عمل جس کے پیچھے اللہ کا تقویٰ ہو کبھی امت کے لیے موجب ہلاکت نہیں ہوسکتا۔ اور ایسے اصحابِ علم ہمیشہ ایک دوسرے کا احترام بھی کرتے ہیں۔ یہی وہ عظیم لوگ ہیں جن کے بارے میں حضرت علامہ سید انور شاہ صاحب نے اس رائے کا اظہار فرمایا کہ مجتہدین کرام اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں، ان کے آپس کے اختلافی مسائل کے بارے میں حتمی صداقت و اصابت کا علم کبھی نہیں ہوسکتا کیونکہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ ایک مجتہد جب کسی جدید مسئلے میں اسلامی حکم جاننے کے لیے کوشش کرتا ہے تو دو باتوں میں سے ایک بات ضرور ہوگی کہ یا وہ نقطہ صواب کو پالے گا اور یا نہیں پا سکے گا لیکن اجر وثواب کا مستحق دونوں صورتوں میں ہوگا۔ پہلی صورت میں دو گونہ ثواب ملے گا دوسری صورت میں یک گونہ اور یہ راز تو قیامت کے دن بھی نہیں کھلے گا کہ نقطہ صواب کس کے ساتھ تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے مقبول بندوں میں سے کسی کو بھی شرمندہ نہیں ہونے دیں گے۔ البتہ ایک اختلاف نیت کا اختلاف ہے۔ نیت کے اختلاف سے مراد یہ ہے کہ آدمی شریعت کی پابندیوں سے آزاد رہنا چاہتا ہے، لیکن کھلم کھلا قرآن و سنت کے احکام سے انکار کی جرأت نہیں ہوتی، اس لیے وہ مختلف احکام کا استخفاف کرتا ہے اور یہ تأثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ احکام اللہ اور اس کے رسول کے نہیں بلکہ مولویوں نے اپنی طرف سے بنا لیے ہیں۔ عوام کالانعام ہوتے ہیں انھیں یہ بات کون سمجھائے کہ ایسا شخص اسلام کو مان کر بھی نہیں مانتا بلکہ وہ اسلام کی تضحیک کرتا ہے۔ جہاد کا انکار ممکن نہیں، تو جہادِ اکبر کی ایک پچ ساتھ لگا لیتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کی وہ سنتیں جن پر لوگوں کا عمل کم کم دکھائی دیتا ہے اس کا مذاق اڑا کر دین کی اہمیت میں کمی کا راستہ کھول دیتا ہے۔ اسلامی اقدار کو غیر معتبر ٹھہرانے کے لیے الفاظ کے طوطے مینا اڑاتا ہے۔ یہ وہ اختلاف ہے جو کبھی الحاد سے جنم لیتا ہے اور کبھی اباحیت سے۔ اس کا جواز پیدا کرنے کے لیے کبھی انتہا پسندی کو گالی دی جاتی ہے اور کبھی بنیاد پرستی کو برابھلا کہا جاتا ہے۔ درحقیقت اختلافات کی یہ نوعیتیں ہیں جس نے پیراہنِ اسلام کو داغ داغ کردیا ہے۔ جس فرقہ بندی کو اٹھتے بیٹھتے گالی دی جاتی ہے اس کا وجود مسلمانوں میں زیادہ نہیں اور جہاں کہیں وہ نظر آتا ہے اس کے پیچھے بھی حکمرانوں کی مصلحتیں کارفرما ہوتی ہیں اور یا اس کا سبب جہالت ہوتا ہے۔ اگر حکمران اس کے علاج کے لیے مخلص ہوں تو دینی احکام کی تعلیم کی طرف توجہ دے کر اسے ختم کیا جاسکتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں دونوں طرح کے اختلافات سے بچنے کی تلقین فرمائی گئی ہے اور ساتھ ہی یہ فرمایا گیا ہے کہ جو قومیں اس کا شکار ہوئی ہیں وہ دنیا میں بھی نا مرادی کے عذاب کا شکار ہوئیں اور آخرت میں بھی اللہ نے ان کے لیے روسیاہی رکھی ہے کیونکہ قیامت کا دن عجیب دن ہوگا۔ ایک طرف خنداں وفرحاں مسکراتے اور روشن چہرے ہوں گے جو اس طرح چمکتے ہوں گے جیسے سورج چمکتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے مطابق (وضو کا پانی جن جن اعضاء کو دھوتا ہے وہی قیامت کے دن سورج کی طرح چمکیں گے) اور کچھ چہرے ایسے ہوں گے جن پر دنیا بھر کی نحوستوں کا سایہ ہوگا تارکول سے بھی زیادہ سیاہ ہوں گے۔ چہروں پر لعنت برس رہی ہوگی، وہ اپنی رو سیاہی کے باعث دور سے پہچانے جائیں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جنھوں نے دین کے روشن چہرے پر سیاہیاں ملنے کی کوشش کی ہوگی۔ انھیں جہنم کی سزا سناتے ہوئے یہ کہا جائے گا کہ اللہ نے تمہیں ایمان کی دولت بخشی تھی، لیکن تم نے ایمان کو کفر سے بدل دیا۔ روشنی کی بجائے تم اندھیروں کے سوداگر بن گئے۔ انسانیت کو تم نے تاریکیوں میں ڈبو دینا چاہا۔ اس کا خمیازہ یہ ہے کہ اپنے کفر کی پاداش میں جہنم کا عذاب چکھو اور جن کے چہرے ایمان کے نور سے روشن ہوں گے ان سے فرمایا جائے گا کہ تم نے دنیا میں قدم قدم پر تاریکیوں کا مقابلہ کیا۔ ان بدبختوں نے ہر ممکن طریقے سے تمہیں پریشان کرنے کی کوشش کی۔ آج تمہیں یکسو ہوجانا چاہیے۔ اب تمہارے لیے پریشانی کا کوئی موقع نہیں۔ اب تمہارے سروں پر اللہ کی رحمت کا سایہ ہوگا اور تم ہمیشہ اس میں نہال رہو گے۔ “
Top