Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 111
لَنْ یَّضُرُّوْكُمْ اِلَّاۤ اَذًى١ؕ وَ اِنْ یُّقَاتِلُوْكُمْ یُوَلُّوْكُمُ الْاَدْبَارَ١۫ ثُمَّ لَا یُنْصَرُوْنَ
لَنْ
: ہرگز
يَّضُرُّوْكُمْ
: نہ بگاڑ سکیں گے تمہارا
اِلَّآ
: سوائے
اَذًى
: ستانا
وَاِنْ
: اور اگر
يُّقَاتِلُوْكُمْ
: وہ تم سے لڑیں گے
يُوَلُّوْكُمُ
: وہ تمہیں پیٹھ دکھائیں گے
الْاَدْبَارَ
: پیٹھ (جمع)
ثُمَّ
: پھر
لَا يُنْصَرُوْنَ
: ان کی مدد نہ ہوگی
وہ تمہیں ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکتے سوائے تھوڑی سی تکلیف کے اور اگر وہ تم سے جنگ کریں گے تو پیٹھ دکھائیں گے پھر وہ مدد نہیں کیے جائیں گے
لَنْ یَّضُرُّوْکُمْ اِلَّآ اَذًی ط وَاِنْ یُّـقَاتِلُوْکُمْ یُوَلُّوْکُمُ الْاَدْبَارَ قف ثُمَّ لاَ یُنْصَرُوْنَ ۔ (وہ تمہیں ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکتے سوائے تھوڑی سی تکلیف کے اور اگر وہ تم سے جنگ کریں گے تو پیٹھ دکھائیں گے پھر وہ مدد نہیں کیے جائیں گے) (111) یہود کی اجتماعی اور عسکری قوت سے متعلق چند پیشگوئیاں گزشتہ آیت کریمہ میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ اہل کتاب کو دنیا کی امامت و قیادت کے منصب سے معزول کر کے مسلمانوں کو اس عظیم منصب پر فائز کیا گیا۔ اہل کتاب بطور خاص یہود چونکہ ایک کینہ ور قوم ہیں۔ وہ اتنے بڑے نقصان کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرسکیں گے۔ اس لیے وہ اپنی تاریخی جبلت سے مجبور ہو کر جو ان سے بن پڑے گا مسلمانوں کے خلاف کر گزریں گے۔ مسلمان ان کی اس سرشت سے واقف ہونے کی وجہ سے یقینا متفکر اور پریشان تھے۔ وہ اس انتظار میں تھے کہ دیکھیں اب یہود کیا کرتے ہیں ؟ پروردگار نے مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے چند ایسی پیش گوئیاں فرمائی ہیں، جنھیں اللہ کے سوا کوئی اور نہیں جانتا۔ جس شخص کی نگاہ ظاہری حالات پر ہو وہ یقینا سوچے گا کہ یہود کے پاس بےپناہ وسائل ہیں۔ دولت کی کوئی کمی نہیں اور پناہ گاہوں کے لیے مضبوط قلعے ان کی ملکیت میں ہیں اور اس کے مقابلے میں مسلمان اپنی تعداد اور وسائل کے اعتبار سے نہایت کمزور ہیں۔ ایک ظاہر بین ان حالات کو دیکھ کر اس کے سوا کوئی اور نتیجہ نہیں نکال سکتا کہ اگر یہود اور مسلمانوں میں جنگ چھڑ گئی تو مسلمانوں کے لیے نہایت تباہ کن ہوگی۔ لیکن پروردگار نہایت مؤکد انداز سے فرما رہے ہیں کہ مسلمانو ! تمہارے لیے فکر کی کوئی بات نہیں، تمہیں اللہ تعالیٰ نے ایمان کی دولت دے کر ایک نئی زندگی سے بہرہ ور کیا ہے۔ جنگ میں وسائل کی بھی ایک اہمیت ہے لیکن اصل فیصلہ کن چیز ہر سپاہی کا عزم اور کردار ہے۔ وہ اگر اپنے مؤقف پر بےپناہ یقین رکھتا ہے اور اس کے اندر اپنے مؤقف کے لیے قربانی دینے کا جوش و جذبہ موجود ہے اور وہ ہر طرح کے حالات میں اللہ پر اعتماد کی دولت سے سرشار ہے تو پھر ایسی فوج کو میدانِ جنگ میں شکست دینا بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ مسلمان تمام معنوی اور اجتماعی قوتوں سے مسلح تھے اور یہود کی زندگی کے سوتے خشک ہوچکے تھے۔ وہ بظاہر کتاب اللہ کے حامل تھے، ان کے یہاں حصول علم کے لیے مدارس کی کمی نہ تھی، سود خور ہونے کی وجہ سے وہ اپنے پاس بڑی مقدار میں دولت بھی رکھتے تھے۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود پروردگار ارشاد فرماتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ہاں ! البتہ تھوڑی بہت تکلیف سے ضرور دو چار کرسکتے ہیں۔ اَذًی کا معنی ضَرَرٌ یَسِیْرٌ ہوتا ہے۔ یعنی تھوڑی سی تکلیف۔ مراد اس سے یہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ گالی گلوچ کرسکتے ہیں، زبان کے جوہر دکھا سکتے ہیں، تہمتیں باندھ سکتے ہیں، طعن وتشنیع کرسکتے ہیں۔ اس طرح سے وہ اپنی دل کی بھڑاس نکال سکتے ہیں۔ لیکن میدانِ جنگ میں کوئی معرکہ سر کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ اس لیے مسلمانوں کو یہ اطمینان رکھنا چاہیے کہ یہود کی جڑ کٹ چکی ہے اب ان کے اندر کوئی دم خم باقی نہیں۔ ممکن ہے قوی عصبیت سے مجبور ہو کر وہ میدانِ جنگ میں آنے کی جرأت کرلیں تو پروردگار فرماتے ہیں کہ اگر وہ تم سے لڑنے کی کوشش بھی کریں تو میدان سے پیٹھ پھیر کے بھاگیں گے۔ چناچہ بعد کے حالات نے ایک ایک پیش گوئی کو سچا ثابت کر دکھایا۔ جنگ بدر سے واپسی پر سب سے پہلے یہود کے ایک قبیلے بنو قینقاع نے شوریدہ سری اور بدطینتی کا مظاہرہ کیا۔ مدینے میں سونے کے کاروبار پر یہی قبیلہ چھایا ہوا تھا۔ کوئی مسلمان عورت شاید کسی زیور کے حصول کے لیے ان کی کسی دکان پر گئی۔ ان بدبختوں نے ایسی کمینی حرکت کی جس سے اس کا ستر کھل گیا۔ اس نے آنحضرت ﷺ کا نام لے کر دہائی دی ” کیا محمد ﷺ کے شہر میں بھی میری عزت محفوظ نہیں ؟ “ کوئی مسلمان پاس سے گزر رہا تھا اس کی حمیت برداشت نہ کرسکی۔ اس نے آگے بڑھ کر جس یہودی نے یہ حرکت کی تھی اسے قتل کردیا۔ یہود نے اس مسلمان کو جو بالکل اکیلا تھا حملہ کر کے یہودی کے قتل کے انتقام میں مار ڈالا۔ آنحضرت ﷺ کو اطلاع ہوئی، آپ تشریف لائے اور آپ ﷺ نے بنوقینقاع کے ذمہ دار لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی اور انھیں اللہ کے عذاب سے ڈرایا اور یہ بھی فرمایا کہ دیکھو ! قریش تم سے کہیں زیادہ طاقتور تھے، لیکن اللہ کی جب گرفت آئی تو میدانِ بدر میں جو ان کا حشر ہوا تم سب کے سامنے ہے۔ اس لیے کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا انجام بھی وہی ہو جو قریش کا ہوا ہے۔ لیکن بنوقینقاع نے بجائے اس کے کہ اپنے رویے پر معذرت کریں انتہائی دریدہ دہنی کا ثبوت دیتے ہوئے کہا کہ محمد ﷺ ! بدر کی کامیابی نے تمہارا دماغ خراب کردیا ہے۔ اور تم اپنے آپ کو بہت بڑی قوت سمجھنے لگے ہو۔ قریش کیا جانے کہ لڑنا کسے کہتے ہیں اس لیے وہ تمہارے ہاتھوں مارے گئے۔ ہم سے جب واسطہ پڑے گا تو اندازہ ہوگا کہ لڑنا کسے کہتے ہیں۔ “ اب اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا کہ بنوقینقاع کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی جائے چناچہ آپ ﷺ نے ان کا محاصرہ کرلیا۔ انھوں نے جب مسلمانوں کو دیکھا تو اپنی گڑھیوں میں قلعہ بند ہوگئے۔ پندرہ روز تک محاصرہ جاری رہا۔ بالآخر اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ اب وہی لوگ جو بات بات پر بدزبانی کرتے تھے اور پٹھے پر ہاتھ نہیں دھرنے دیتے تھے، ان کی ساری ہیکڑی جاتی رہی اور اس شرط پر ہتھیار ڈال دیے کہ رسول اللہ ﷺ ان کی جان و مال، آل اولاد اور عورتوں کے بارے میں جو فیصلہ کریں گے انھیں منظور ہوگا۔ اس کے بعد آپ ﷺ کے حکم سے ان سب کو باندھ لیا گیا۔ ممکن ہے آپ ﷺ ان کے بارے میں کوئی سخت فیصلہ فرماتے لیکن عبداللہ بن ابی ٔ نے منافقانہ کردار ادا کیا اور نہایت اصرار کے ساتھ آپ ﷺ کو مجبور کردیا کہ آپ ﷺ ان کو شہر سے نکال دیں، لیکن ان کی زندگیوں سے تعرض نہ کریں۔ یہود کا دوسرا قبیلہ بنونضیر کے نام سے معروف ہے۔ بنوقینقاع کے ساتھ جو کچھ ہوا اس نے بنونضیر کو کسی حد تک پرسکون رہنے پر مجبور کردیا۔ لیکن غزوہ احد کے بعد ان کی جرأتیں بڑھ گئیں اور وہ کھلم کھلا مسلمانوں کے خلاف مختلف طریقوں سے دشمنی کا اظہار کرنے لگے۔ حتیٰ کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ سیرت نگاروں نے اس کی جو تفصیل بیان کی ہے وہ حسب ذیل ہے : نبی کریم ﷺ اپنے چند صحابہ کے ہمراہ ایک معاملے پر گفتگو کرنے کے لیے یہود کے پاس تشریف لے گئے۔ یہود نے آپ ﷺ سے کہا کہ ابو القاسم ! آپ فکر نہ کریں جیسا آپ فرمائیں گے ہم ویسا ہی کریں گے۔ آپ کچھ دیر کے لیے تشریف رکھیں ہم ابھی آپ کی ضرورت پوری کیے دیتے ہیں۔ آپ ان کے گھر کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اور ان کے وعدے کی تکمیل کا انتظار کرنے لگے۔ آپ ﷺ کے ساتھ حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت علی اور صحابہ کرام ( رض) کی ایک جماعت تھی۔ ادھر یہود تنہائی میں جمع ہوئے تو ان پر شیطان سوار ہوگیا۔ انھوں نے باہم مشورے سے نبی کریم ﷺ کے قتل کا فیصلہ کرلیا۔ چناچہ انھوں نے آپس میں کہا کون ہے جو اس چکی کو اٹھا کر اوپر جائے اور آپ ﷺ کے سر پر گرا کر آپ ﷺ کو کچل دے۔ اس پر ایک بدبخت یہودی عمرو بن جحاش نے کہا میں یہ کام کروں گا۔ ان لوگوں میں سلام بن مشکم نے کہا کہ ایسا نہ کرو کیونکہ خدا کی قسم ! انھیں تمہارے ارادوں کی خبر دے دی جائے گی اور پھر ہمارے اور ان کے درمیان جو عہد و پیمان ہے یہ اس کی خلاف ورزی بھی ہے۔ لیکن انھوں نے ایک نہ سنی اور اپنے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کوششیں کرنے لگے۔ رب العالمین کی جانب سے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور آپ ﷺ کو یہود کے ارادوں سے باخبر کیا۔ آپ ﷺ تیزی سے اٹھے اور مدینے کے لیے چل پڑے۔ بعد میں صحابہ کرام بھی آپ ﷺ سے آن ملے اور کہنے لگے کہ آپ ﷺ تشریف لے آئے۔ ہمیں معلوم نہ ہوسکا کہ آپ کیوں واپس تشریف لے آئے۔ چناچہ آپ ﷺ نے صحابہ کو یہود کے ارادے سے باخبر کیا۔ مدینہ پہنچ کر آپ ﷺ نے فوراً ہی محمد بن مسلمہ ( رض) کو بنی نضیر کے پاس روانہ فرمایا اور انھیں یہ نوٹس دیا کہ تم لوگ مدینے سے نکل جاؤ۔ اب یہاں میرے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ تمہیں دس دن کی مہلت دی جاتی ہے اس کے بعد جو شخص بھی پایا جائے گا اس کی گردن مار دی جائے گی۔ اس نوٹس کے بعد یہود کو جلاوطنی کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آیا۔ چناچہ وہ چند دن تک سفر کی تیاریاں کرتے رہے، لیکن اسی دوران عبداللہ بن ابی ٔ رئیس المنافقین نے کہلا بھیجا کہ اپنی جگہ برقرار رہو۔ ڈٹ جاؤ اور گھر بار نہ چھوڑو۔ میرے پاس دو ہزار مردانِ جنگی ہیں جو تمہارے ساتھ تمہارے قلعے میں داخل ہو کر تمہاری حفاظت میں جان دے دیں گے اور اگر تمہیں نکالا ہی گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکل جائیں گے اور تمہارے بارے میں کسی سے ہرگز نہیں دبیں گے اور اگر تم سے جنگ کی گئی ہم تمہاری مدد کریں گے اور بنو قریظہ اور بنو غطفان جو تمہارے حلیف ہیں وہ بھی تمہاری مدد کریں گے۔ یہ پیغام سن کر یہود کی خوداعتمادی پلٹ آئی اور انھوں نے طے کرلیا کہ جلاوطن ہونے کی بجائے ٹکر لی جائے گی۔ ان کے سردار کو توقع تھی کہ رئیس المنافقین نے جو کچھ کہا ہے وہ پورا کرے گا۔ اس لیے اس نے رسول اللہ ﷺ کو پیغام بھیج دیا کہ ہم اپنے دیار سے نہیں نکلتے، آپ کو جو کرنا ہو کرلیں۔ لیکن اللہ کی قدرت کا کیا ٹھکانہ ہے کہ چھ سات دن کے محاصرے کے بعد ہی بنو نضیر کے حوصلوں نے جواب دے دیا اور وہ جن کے اعتماد پر ہتھیار ڈالنے سے انکار کر رہے تھے ان میں سے کوئی شخص بھی ان کی مدد کے لیے نہیں پہنچا۔ چناچہ انھوں نے خود رسول اللہ ﷺ کو کہلا بھیجا کہ ہم مدینے سے نکلنے کو تیار ہیں۔ آپ ﷺ نے ان کی جلاوطنی کی پیش کش قبول فرما لی اور یہ بھی منظور فرما لیا کہ وہ اسلحہ کے سوا باقی جتنا سازو سامان اونٹوں پر لاد سکتے ہوں سب لے کر بچوں سمیت نکل جائیں۔ اس طرح سے بنو نضیر کا کام تمام ہوا۔ نہ ان کے ہتھیار ان کے کام آئے نہ ان کی افرادی قوت حوصلہ دکھا سکی، نہ ان کے حلیف وقت پر امداد کے لیے پہنچ سکے۔ یہود کا تیسرا قبیلہ مدینہ منورہ میں بنوقریظہ کے نام سے معروف تھا۔ ان لوگوں کا مسلمانوں سے معاہدہ تھا کہ اگر باہر سے کوئی حملہ کرے گا تو ہم مسلمانوں کے ساتھ مل کر مدینے کی حفاظت کریں گے۔ لیکن غزوہ خندق میں انھوں نے کھلم کھلا معاہدہ توڑ ڈالا اور مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد کی۔ چناچہ جب اللہ نے قریش اور ان کے حلیفوں پر تیز آندھی کا عذاب بھیجا تو وہ اس قدر خوفزدہ ہوئے کہ سر پر پائوں رکھ کر بھاگے۔ مسلمان جیسے ہی ادھر سے یکسو ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے بنوقریظہ کا محاصرہ کرنے کا حکم دیا تاکہ انھیں ان کی عہد شکنی کی سزا دی جائے۔ محاصرے کی شدت نے بنوقریظہ کا دم خم توڑ ڈالا اور وہ سمجھ گئے کہ صلح کی پیشکش کے سوا اور ہمارے سامنے کوئی راستہ نہیں۔ چناچہ انھوں نے مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ ہمارے بارے میں سعد بن معاذ ( رض) کو فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے۔ وہ جو فیصلہ کریں گے ہمیں منظور ہوگا۔ چناچہ حضرت سعد ( رض) جو غزوہ خندق میں زخمی ہوچکے تھے وہ مدینہ میں تھے، آنحضرت ﷺ نے ان کو طلب فرمایا۔ سعد ( رض) تشریف لائے تو آپ ﷺ نے فرمایا ” سعد ! یہ لوگ تمہارے فیصلے پر اترے ہیں “ حضرت سعد ( رض) نے کہا : کیا میرا فیصلہ ان پر نافذ ہوگا ؟ لوگوں نے کہا : جی ہاں۔ انھوں نے کہا : مسلمانوں پر بھی ؟ لوگوں نے کہا : جی ہاں۔ تو آپ ( رض) نے کہا ” میرا فیصلہ یہ ہے کہ مردوں کو قتل کردیا جائے، عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا جائے اور اموال تقسیم کرلیے جائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” تم نے ان کے بارے میں وہی فیصلہ کیا ہے جو سات آسمانوں کے اوپر سے اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے۔ “ حضرت سعد ( رض) کا یہ فیصلہ انتہائی عدل و انصاف پر مبنی تھا کیونکہ بنو قریظہ نے مسلمانوں سے موت وحیات کے نازک ترین لمحات میں جو خطرناک بدعہدی کی تھی وہ تو انتہائی قابل نفرت تھی ہی لیکن اس کے علاوہ بھی انھوں نے مسلمانوں کے خاتمے کے لیے ڈیڑھ ہزار تلواریں، دو ہزار نیزے، تین سو زرہیں اور پانچ سو ڈھالیں مہیا کر رکھی تھیں۔ جن پر فتح کے بعد مسلمانوں نے قبضہ کیا۔ یہود کے یہ وہ تین قبائل تھے جو اس طرح سے اپنے انجام کو پہنچے۔ قرآن کریم نے جب ان کے بارے میں پیش گوئی فرمائی تو کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ یہود کے ان قبائل کا یہ انجام ہوگا۔ ان تینوں میں سے ایک ایک قبیلہ اپنے انجام کی طرف بڑھتا گیا، لیکن قرآن کریم کی پیش گوئی کے مطابق کسی طرف سے ان کو مدد نہ پہنچ سکی حالانکہ مدینہ منورہ کے گرد و پیش میں پھیلے ہوئے قبائل سے ان کے معاہدے تھے۔ لیکن کوئی معاہدہ ان کے کام نہ آیا۔
Top