Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 121
وَ اِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
وَاِذْ : اور جب غَدَوْتَ : آپ صبح سویرے مِنْ : سے اَھْلِكَ : اپنے گھر تُبَوِّئُ : بٹھانے لگے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) مَقَاعِدَ : ٹھکانے لِلْقِتَالِ : جنگ کے وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور اس وقت کو یاد کرو جب اے پیغمبر تم صبح سویرے اپنے گھر سے نکلے، بٹھا رہے تھے مسلمانوں کو جنگ کے مورچوں میں اور اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے
وَاِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَہْلِکَ تُبَوِّیُٔ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَلِلْقِتَالِ ط وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۔ لا اِذْہَمَّتْ طَّـآئِفَتٰنِ مِنْـکُمْ اَنْ تَفْشَلاَ لا وَاللّٰہُ وَلِیُّہُمَا ط وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ ۔ (اور اس وقت کو یاد کرو جب اے پیغمبر تم صبح سویرے اپنے گھر سے نکلے، بٹھا رہے تھے مسلمانوں کو جنگ کے مورچوں میں اور اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔ جب ارادہ کیا تم میں سے دو جماعتوں نے کہ ہمت ہار دیں حالانکہ اللہ تعالیٰ دونوں کا مددگار تھا اور اللہ ہی پر چاہیے کہ اہل ایمان بھروسہ کریں) (121 تا 122) غزوہ احد کے واقعات پر تبصرہ مسلمانوں کی فتح و نصرت کے لیے گزشتہ آیت کریمہ میں صبر اور تقویٰ کو لازمی شرط اور ضمانت کے طور پر ذکر فرمایا گیا ہے۔ جنگ احد میں چونکہ مسلمانوں کو بظاہر شکست سے دوچار ہونا پڑا اس لیے ضرورت پیدا ہوئی کہ یہ دیکھا جائے کہ مسلمانوں کی فتح و نصرت چونکہ ان دو صفات پر مدار رکھتی ہیں تو کیا جنگ احد میں ان میں کہیں کمی واقع تو نہیں ہوئی جس کی وجہ سے اتنا بڑا واقعہ پیش آیا۔ جنگ احد کا واقعہ چونکہ ان آیات کے نزول کے زمانے ہی میں پیش آیا ہے اس لیے اس جنگ کے وقوع اور ان آیات کے نزول نے ایک تقریب پیدا کردی جس کی وجہ سے قرآن کریم نے پیش نظر آیت کریمہ سے جنگ احد کے حالات پر تبصرہ کرنے کے لیے ایک تمہید اٹھائی ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ جنگ احد میں مسلمان اتنے بڑے نقصان سے دوچار کیوں ہوئے۔ تمہید میں آنحضرت ﷺ کے جنگ کی خاطر گھر کے نکلنے سے واقعات کا آغاز کیا گیا ہے۔ جنگ بدر کو گزرے ایک سال کا عرصہ ہوا تھا۔ لیکن یہ سال قریش نے انگاروں پر لوٹتے ہوئے گزارا تھا۔ ان کے لیے مسلمانوں کے ہاتھوں یہ شکست ایک ایسا المیہ تھا جسے وہ کبھی نہیں بھول سکتے تھے۔ وہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ مسلمانوں جیسی کمزور طاقت سے وہ اتنے بڑے حادثے سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ چناچہ جیسے ہی ان کا شکست خوردہ لشکر واپس مکہ پہنچا تو انھوں نے اعلان کردیا کہ کوئی شخص اپنے مقتولوں پر رونے کی غلطی نہ کرے تاکہ یہ صدمہ آنسوئوں میں تحلیل نہ ہوجائے۔ چناچہ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ان کا یہ صدمہ آتش انتقام کو بڑھکاتا چلا گیا۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ جنگ بدر سے پہلے جو قافلہ تجارت ایک بڑے نفع کے ساتھ واپس آیا تھا وہ سارا نفع تقسیم کرنے کی بجائے اس جنگ کا انتقام لینے پر صرف کیا جائے۔ چناچہ وہ جنگ کے دوسرے ہی سال یعنی شوال 3 ہجری میں تین ہزار کا لشکر جرار لے کر نکلے اور جوش حمیت کو تیز کرنے کے لیے ان کی عورتیں بھی ساتھ آئیں جن کی قیادت ابو سفیان کی بیوی ہند کر رہی تھی۔ آنحضرت ﷺ کو حضرت عباس ( رض) نے اس ساری نقل و حرکت اور جنگی تیاریوں سے متعلق پوری تفصیلات لکھ بھیجیں۔ حضرت عباس ( رض) کے قاصد نے پانچ سو (500) کلومیٹر کی مسافت صرف تین دن میں طے کر کے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضری دی۔ جب قریش کا لشکر احد کے میدان میں پہنچ گیا تو آپ ﷺ نے اکابر مسلمانوں کی مجلسِ شوریٰ طلب کی۔ آپ ﷺ نے ان کے سامنے اپنا خواب بیان فرمایا کہ واللہ ! میں نے ایک بھلی چیز دیکھی۔ میں نے دیکھا کہ کچھ گائیں ذبح کی جا رہی ہیں اور میں نے دیکھا کہ میری تلوار کے سرے پر کچھ شکستگی ہے اور یہ بھی دیکھا کہ میں نے اپنا ہاتھ ایک محفوظ زرہ میں داخل کیا۔ پھر آپ ﷺ نے گائے کی یہ تعبیر فرمائی کہ کچھ صحابہ قتل کیے جائیں گے۔ تلوار میں شکستگی کی یہ تعبیر بتلائی کہ آپ کے گھر کا کوئی آدمی شہید ہوگا اور محفوظ زرہ کی یہ تعبیر بتلائی کہ اس سے مراد شہر مدینہ ہے۔ پھر آپ ﷺ نے صحابہ کرام کے سامنے دفاعی حکمت عملی کے متعلق اپنی رائے پیش کی کہ مدینے سے باہر نہ نکلیں بلکہ شہر کے اندر ہی قلعہ بند ہوجائیں۔ اب اگر مشرکین اپنے کیمپ میں مقیم رہتے ہیں تو بےمقصد ہوگا اور اگر مدینے میں داخل ہوتے ہیں تو مسلمان گلی کو چے کے ناکوں پر ان سے جنگ کریں گے اور عورتیں چھتوں کے اوپر سے ان پر خشت باری کریں گی۔ یہی صحیح رائے تھی اور اسی رائے سے عبداللہ بن ابی ٔ رئیس المنافقین نے بھی اتفاق کیا جو اس مجلس میں خزرج کے ایک سر کردہ نمائندہ کی حیثیت سے شریک تھا۔ جس سے اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ جنگ سے دور بھی رہے اور کسی کو اس کا احساس بھی نہ ہو۔ لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا اس نے چاہا کہ یہ شخص اپنے رفقاء سمیت پہلی بار رسوا ہوجائے اور مسلمانوں کو معلوم ہوجائے کہ ان کی آستین میں کتنے سانپ رینگ رہے ہیں۔ چناچہ نوجوان صحابہ کی ایک جماعت نے جو شوق شہادت سے بےتاب ہو رہے تھے اس بات پر اصرار کیا کہ میدان میں نکل کر مقابلہ کیا جائے۔ بعض صحابہ نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ ! ہم تو اس دن کی تمنا کیا کرتے تھے اور اللہ سے اس کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔ اب اللہ نے یہ موقع فراہم کردیا ہے اور میدان میں نکلنے کا وقت آگیا ہے تو پھر آپ دشمن کے مدمقابل ہی تشریف لے چلیں، وہ یہ نہ سمجھے کہ ہم ڈر گئے ہیں۔ ان گرم جوش حضرات میں خود رسول اللہ ﷺ کے چچا حضرت حمزہ بن عبدالمطلب ( رض) سرفہرست تھے جو معرکہ بدر میں اپنی تلوار کے جوہر دکھا چکے تھے۔ انھوں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی کہ ” اس ذات کی قسم جس نے آپ پر کتاب نازل کی میں کوئی غذا نہ چکھوں گا یہاں تک کہ مدینے سے باہر اپنی تلوار کے ذریعے ان سے دو دو ہاتھ کرلوں۔ “ چناچہ کثرت رائے کے پیش نظر حضور ﷺ نے بھی اسی فیصلے سے اتفاق فرمایا اور خود زرہ پہن کر گھر سے باہر تشریف لائے اور ایک ہزار کی جمعیت کے ساتھ 6 شوال بروزجمعہ 3 ہجری عصر کے بعد مدینہ طیبہ سے احد کی طرف روانہ ہوئے۔ آپ ﷺ نے شیخان نامی ایک مقام پر پہنچ کر لشکر کا معائنہ فرمایا، جو لوگ چھوٹے یا ناقابلِ جنگ نظر آئے انھیں واپس کردیا۔ لشکر کی تیاری میں چونکہ شام ہوچکی تھی لہٰذا آپ ﷺ نے یہیں مغرب اور پھر عشاء کی نماز پڑھی اور یہیں رات بھی گزارنے کا فیصلہ فرمایا۔ پچاس صحابہ پہرہ دینے کے لیے منتخب فرمائے جن کے قائد محمد بن مسلمہ انصاری ( رض) تھے۔ طلوعِ فجر سے کچھ پہلے آپ ﷺ پھر آگے بڑھے اور مقام شوط پر پہنچ کر فجر کی نماز ادا فرمائی۔ اب آپ ﷺ دشمن کے بالکل قریب تھے اور دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ یہیں پہنچ کر عبداللہ بن ابی ٔ نے دھوکا دیا اور اپنے تین سو ہمراہیوں کے ساتھ الگ ہوگیا۔ یہ مسلمانوں کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا کیونکہ اب مسلمانوں کی تعداد کفار کی تعداد سے چوتھائی سے بھی کم ہوگئی۔ اس نے علیحدگی کا بہانہ یہ کیا کہ چونکہ ہماری بات نہیں مانی گئی ہم اندر رہ کر مدینے کی مدافعت کرنا چاہتے تھے اس لیے اب ایسی لڑائی میں ہم شریک نہیں ہوسکتے جو صریحاً خودکشی کے مترادف ہے حالانکہ اس کا یہاں تک مسلمانوں کے ساتھ چلے آنا بجائے خود اس بات کی دلیل تھا کہ اس کا بہانہ غلط ہے۔ وہ محض اپنی سازش پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے۔ ایسے نازک موقع پر بعض لوگوں نے اسے سمجھانے کی کوشش بھی کی، انھیں میں حضرت جابر ( رض) کے والد حضرت عبداللہ ابن حرام ( رض) نے بھی انھیں ہر ممکن طریقے سے ان کا فرض یاد دلایا۔ لیکن وہ جو کچھ کہتے رہے قرآن کریم نے یہ کہہ کر اس کا پردہ چاک کیا : یَقُولُوْنَ بِاَفْوَاہِہِمْ مَا لَیْسَ فِیْ قَلُوْبِہِمْ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا یَـکْتُمُوْنَ (وہ اپنے مونہوں سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے اور یہ جو کچھ چھپاتے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے) اس نے یہ سازش اپنے ساتھیوں سے مل کر اس لیے کی تھی کہ ہم جب عین وقت پر مسلمانوں کا ساتھ چھوڑیں گے تو یقینا اس کا اثر دوسرے لوگوں پر بھی پڑے گا۔ وہ یا تو ہمارا ساتھ دیں گے اور یا حوصلہ ہار جائیں گے۔ وہ کسی حد تک اپنے ارادوں میں کامیاب ہونے ہی والے تھے کہ اللہ نے ان کی چال ناکام کردی۔ اگلی آیت کریمہ میں اسی بات کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ آیت میں دو گروہوں کا تذکرہ اس آیت کریمہ میں جن دو گروہوں کی طرف اشارہ ہے۔ وہ قبیلہ خزرج کے بنو سلمہ اور قبیلہ اوس کے بنو حارثہ ہیں۔ ان دونوں گروہوں میں منافقین کی پسپائی کی وجہ سے کچھ کمزوری کے آثار پیدا ہوئے اور وہ بھی واپس جانے کے بارے میں سوچنے لگے۔ لیکن اللہ نے ان کے دلوں کو سنبھالا اور ان کے اندر جو اضطراب پیدا ہوا تھا اسے دور فرما دیا۔ اگر اللہ انھیں سہارا نہ دیتا تو بہت ممکن تھا کہ یہ لوگ ہمت ہار جاتے لیکن اللہ نے فرمایا کہ اللہ ان کا ولی ہے یعنی کارساز ہے، غمگسار ہے اور سہارا دینے والا ہے۔ ان کے اندر بےہمتی کا اثر ایک وقتی بات تھی اور یہ بڑے سے بڑے صاحب ایمان میں بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن اپنے گزشتہ اعمال اور قربانیوں کے باعث وہ اللہ کی ولایت کے مستحق بن چکے تھے اس لیے اللہ نے بروقت ان کو سنبھالا اور ساتھ ہی یہ بات فرمائی کہ جب اللہ کسی کا سہارا بن جاتا ہے تو پھر ساری دنیا بھی مخالف ہوجائے تو اسے ڈولنے اور ہراساں ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی اللہ کی طاقت کے مقابلے میں صفر ہے۔ جس شخص کو اس بات کا یقین ہو کہ اللہ میرا کارساز ہے، اس کے لیے پھر ایک ہی راستہ ہے کہ وہ ہر بڑی سے بڑی مصیبت میں بھی اپنے اللہ پر بھروسہ کرے کیونکہ صاحب ایمان لوگ غیر اللہ پر نہیں اللہ ہی پر بھروسہ کیا کرتے ہیں۔ چناچہ ان دونوں گروہوں نے بھی اللہ پر بھروسہ کیا اور نہایت پامردی کے ساتھ دشمن کے خلاف مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ آیت کریمہ میں چونکہ ان کی بےہمتی کا ذکر ہوا ہے اور یہ قیامت تک پڑھا جائے گا۔ اس لیے جب بھی اس آیت کی تلاوت ہوتی تو ان دونوں گروہوں کے لوگوں کو نہایت شرمساری ہوتی۔ لیکن ساتھ ہی وہ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ہم اپنی کمزوری پر اللہ سے مغفرت طلب کرتے ہیں، لیکن ہمارے لیے یہ اعزاز کیا کم ہے کہ پروردگار نے اپنی ذات کو ہمارا ولی قرار دیا ہے۔ یہ اتنے بڑے فخر کی بات ہے کہ جس میں کوئی شریک وسہیم نہیں۔
Top